Wp/khw/فہرست پاکستان کے مقامات عالمی ثقافتی ورثہ

From Wikimedia Incubator
< Wp‎ | khw
Wp > khw > فہرست پاکستان کے مقامات عالمی ثقافتی ورثہ

یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ایسے مقامات ہیں جو ثقافتی یا قدرتی خاس اہمیت کے حامل ہیں اور انسانیت کے ورثے کے لیے مشترکہ اہم ہیں۔

درج شدہ مقامات[edit | edit source]

نام تصویر علاقہ دور یونیسکو معلومات تفصیل حوالہ جات
موئن جو دڑو سندھ, پاکستان 27°19′45″N 68°8′20″E / 27.32917°N 68.13889°E / 27.32917; 68.13889 (Archaeological Ruins at Moenjodaro) چھنیسویں صدی قبل مسیح تا انیسویں صدی قبل مسیح 138; 1980; دوم, سوم موئن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موہنجوداڑو بھی) وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ [1]
ٹیکسلا پنجاب, پاکستان
33°46′45″N 72°53′15″E / 33.77917°N 72.88750°E / 33.77917; 72.88750 (Taxila)
پانچویں صدی قبل مسیح تا دوسری صدی Template:Sort راولپنڈی سے 22 میل دور، بجانب شمال مغرب، ایک قدیم شہر۔ 326 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا۔ اور یہاں پانچ دن ٹھہرا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کی۔ جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکمرانوں دیمریس نے 190 ق م گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چین سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک سٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے ( جن میں بعض یونانی دور کے ہیں ) زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔ [2]
تخت بھائی کے بدھ کھنڈر اور قربی شہر سیری بہلول کی باقیات خیبر پختونخوا, پاکستان 34°19′15″N 71°56′45″E / 34.32083°N 71.94583°E / 34.32083; 71.94583 (Buddhist Ruins of Takht-i-Bahi and Neighbouring City Remains at Sahr-i-Bahlol) پہلی صدی Template:Sort تخت بھائی (تخت بائی یا تخت بہائی) پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جو اندازہً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مردان سے تقریباً 15 پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سرحد میں واقع ہے۔ اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔ تخت اس کو اس لیے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس لیے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی تحصیل مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں اُگتی ہیں، جن میں پٹ سن، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیشِ نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ (monastery) کے نزدیک بنائی گئی تھی۔ [3]
قلعہ لاہور اور شالامار باغ پنجاب, پاکستان Template:Coord 1556 Template:Sort قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہء پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ [1] قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء-1642ء میں تعمیر کرایا۔ [4]
مکلی کا قبرستان, ٹھٹہ سندھ, پاکستان Template:Coord چودہویں صدی تا اٹھارویں صدی Template:Sort [5]
قلعہ روہتاس پنجاب, پاکستان Template:Coord 1541 Template:Sort شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ یہ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہو گیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج مین نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔ [6]

مجوزہ مقامات[edit | edit source]

نام تصویر علاقہ قسم سال پیش تفصیل حوالہ جات
بادشاہی مسجد, لاہور پنجاب, پاکستان ثقافتی 1993 بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔ [7][8]
مسجد وزیر خان, لاہور پنجاب, پاکستان ثقافتی 1993 مسجد وزیر خان شہر لاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔ چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجا دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ۔ [9]
مقبرہ جہانگیر, آصف خان کا مقبرہ اور اکبری سرائے، لاہور پنجاب, پاکستان ثقافتی 1993 مقبرہ جہانگیر لاہور کو مغلیہ عہد میں تعمیر کیے گئے مقابر میں ایک بلند مقام حاسل ہے۔ یہ دریائے راوی لاہور کے کنارے باغ دلکشا میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مزار پاکستان میں مغلوں کی سب سے حسین یادگار ہے۔ [10]
ہرن مینار اور تالاب، شیخوپورہ پنجاب, پاکستان ثقافتی 1993 ہرن مینار لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ شہنشاہ جہانگیر کے پالتو ہرن کی یاد میں بنوایا گیا تھا۔ [11]
قلعہ رانی کوٹ, دادو سندھ, پاکستان ثقافتی 1993 [12]
جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ سندھ, پاکستان ثقافتی 1993 جامع مسجد ٹھٹھہ (جسے شاہجہانی مسجد اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔ اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے ۔ [13]
چوکنڈی آثار قدیمہ, کراچی سندھ, پاکستان ثقافتی 1993 [14]
آثار قدیمہ مہر گڑھ بلوچستان, پاکستان ثقافتی; سوم، چہارم 2004 مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو آج کل بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی اور جانوروں کو پالنے کے بارے میں پتہ لگتا ہے۔ [15]
آثار قدیمہ رحمن ڈھیری - خیبر پختونخوا, پاکستان ثقافتی; اول، دوم 2004 [16]
آثار قدیمہ ہڑپہ پنجاب, پاکستان ثقافتی; دوم، چہارم 2004 ہڑپہ قدیم پاکستان کا ایک شہر جس کے کھنڑرات پنجاب میں ساہیوال سے 35 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف ہیں۔

یہ وادی سندھ کی قدیم تہزیب کا مرکز تھا۔ یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک رہا۔ یہاں چالیس ہزار کے قریب آبادی رہی۔

[17]
آثار قدیمہ رانی گات - خیبر پختونخوا, پاکستان ثقافتی; دوم، چہارم 2004 [18]
شہباز گڑھی سنگی حکم نامے خیبر پختونخوا, پاکستان ثقافتی; اول، دوم، چہارم 2004 [19]
مانسہرہ سنگی حکم نامے - خیبر پختونخوا, پاکستان ثقافتی; اول، دوم، چہارم 2004 [20]
بلتت قلعہ گلگت بلتستان, پاکستان ثقافتی; اول، دوم 2004 بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے - [21]
مقبرہ بی بی جیوندی, بہا الحلیم مقبرہ اور مسجد سید جلال الدین سرخ پوش بخاری پنجاب, پاکستان ثقافتی; دوم،چہارم،ششم 2004 اچ یا اچ شریف، پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ بہاولپور سے 75 کلومیٹر دور ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر 500 سال قبل مسیح قائم ہوا۔ محمد بن قاسم نے یہ شہر فتح کیا اور اسلامی حکومت میں یہ شہر اسلامی تعلیم کا مرکز رہا۔ یہاں بہت سے صوفیا کے مزارات ہیں۔ [22]
مقبرہ رکن عالم پنجاب, پاکستان ثقافتی; سوم،چہارم،ششم 1993, 2004 [23]
بھمبھور سندھ, پاکستان ثقافتی; چہارم،پنجم،ششم 2004 [24]

بیرونی روابط[edit | edit source]

حوالہ جات[edit | edit source]

زمرہ:پاکستان کے سیاحتی مقامات زمرہ:پاکستان کے سیاحتی مقامات کی فہرستیں زمرہ:پاکستان میں مقامات عالمی ثقافتی ورثہ زمرہ:پاکستانی مقامات کی فہرستیں زمرہ:فہرست مقامات عالمی ثقافتی ورثہ