Wp/khw/محمد زبیر مظہر پنوار

From Wikimedia Incubator
< Wp‎ | khw
Wp > khw > محمد زبیر مظہر پنوار

محمد زبیر مظہر پنوار

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے انتہائی پسماندہ علاقے ضلع بہاول پور کی چولستان میں واقع تحصیل حاصل پور شہر میں 26اگست 1985ء آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے والد کا نام میاں مظہر حسین پنوار ولد میاں محمد یار پنوار ہے ۔ آپ کے آباء و اجداد کا آبائی علاقہ مگھیر شریف چشتیاں شریف ہے۔ آپ کا تعلق راجپوت پنوار فیملی سے ہے۔ آپ کے آباء ہندوستان پر بابر مغل بادشاہ کے قبضے کے بعد ریاست چتوڑ سے ہجرت کر کے آ تحصیل چشتیاں کی ایک بستی میں آ کر مقیم ہو گئے تھے تھی۔ وہ بستی آج بھی دریائے ستلج کے کنارہ آباد ہے۔ جسے مگھیر شریف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی بستی میں اللہ کے ولی خواجہ نور محمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی بھی پیدائش ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ نور محمد چشتی رح کی پیش گوئی بھی محمد زبیر مظہر پنوار کے آباء میں سے ایک فقیر درویش ولی خواجہ احمد یار رحمتہ اللہ علیہ جن کا ہڑپہ میں دربار ہے۔ یا شیخ امام دین رحمہ اللہ علیہ جن کا دربار پرانی چشتیاں نہر کنارے دربار والے قدیم قبرستان میں مزار ہے نے کی تھی۔ جنہیں پنجابی میں ساوے چیرے والا پیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس ساوے چیرے والے پیر کے متعلق پنجابی اور سرائیکی زبان میں کافی لوک گیت یا کافیاں گائی پڑھی اور لکھی جاتی رہی ہیں ۔ بہرحال کے آباء کے متعلق یہی کہا جا سکتا کہ آپ کے آباء کم و بیش چار پانچ سو سال پہلے سے مقامی ہو گئے تھے۔ اسی لیے انہیں ریاستی بھی کہا جاتا ہے۔ ریاستی اس لیے کہ بہاول پور ایک الگ ریاست تھی اور وہ تقسیم ہند سے پہلے انگریز غلامی سے آزاد ایک امیر ریاست تھی ۔ جسے پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں ضم کر دیا گیا ۔ زبیر پنوار کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ آپ اپنے والد کی سات اولادوں میں سے سب سے بڑے ہیں ۔ آپ تین بھائی اور چار بہنیں ہیں ۔ آپ ایک معروف افسانہ نگار مائیکرو فکشن نگار فلیش فکشن نگار ناول نگار کالم نگار نقاد شاعر مؤرخ اسکالر عالمی مذاہب ہیں۔ آپ بطور سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی علاقائی طور پر جانا پہچانا نام ہیں۔ بالخصوص نوجوان سیاسی رہنماؤں میں آپ کا نام علاقہ کے چند شہرت یافتہ افراد میں شامل کیا جاتا ہے۔ آپ کی اصل پہچان اردو ادب میں آپ کی خدمات ہیں ۔ آپ اردو انگریزی زبانوں میں لکھتے ہیں ۔ آپ نے اردو ادب کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار عالمی ادب سے فلیش فکشن صنف مستعار لیتے ہوئے متعارف کروائی ۔ آپ نے باقاعدہ دو ایونٹ بھی کروائے ۔ جس میں دنیا بھر نامور ادباء اور ناقدین نے حصہ لیا ۔ آپ کو بطور فلیش فکشن نگار کے کسی بھی ادبی مجلہ میں سب پر سبقت حاصل ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ دور جدید اور نوجوانوں میں باقاعدہ پہلے اردو فلیش فکشن نگار ہیں تو یہ بات بالکل درست ہے ۔ علاوہ ازیں آپ کے تاریخ اور انسانی ارتقاء و زبان کے متعلق کئی مضامین بطور حوالا یونیورسٹیز کے طلبہ اپنے Mphil کے مقالاجات میں پیش کرتے ہیں ۔ سرائیکی زبان اور قوم کے حوالا سے آپ کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ آپ ایک بہترین مذہبی اسکالر بھی عیں ۔ علم فلسفہ پر آپ گہری نظر رکھتے ہیں ۔ بالخصوص جدیدیت مابعدجدیت وجودیت اور اشتراکی نظام کے داعی ہیں ۔ آپ کارل مرکس کو جدید دنیا کا روحانی پیشواء بھی کہتے ہیں ۔ آپ بطور مذہبی شخصیت کے ایک مسلمان انسان ہیں ۔ لیکن آپ کا کہنا ہے کہ اسلام بذات خود سیکیولر اور لبرل مذہب ہے ۔ اسی وجہ سے آپ مذہبی حلقوں میں شدید تنقید کی زد میں آتے رہتے ہیں ۔ بطور ناول نگار آپ نے اپنا پہلا ناول ( بھٹکتے رہے خدا کے پہلوؤں میں ) 2015ءمیں لکھا ۔ جسے دبستان ادب میگزین نے شائع کیا ۔ آپ کو کا پہلا افسانہ 2011ء میں شائع ہوا ۔ اور عالمی سطح پر آپ کا پہلا فسانہ ( کہانی نہیں بدلتی ) 2016ء میں معروف بھارتی اردو اخبار اودھ نامہ لکھنو میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد ژپ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ آپ کم و بیش پچاس افسانے لکھ چکے ۔ جن میں غیب سے امداد؛ بن بھاڑے کا ٹٹو ؛ حفاظت ؛ کافر مرتد ؛ تہریب یافتہ ؛ دان ؛ سانجھا ؛ سوکھا ؛ علی کل شئی قدیر ؛ فتور ؛ سماویہ ؛ فیضو ؛ تاریخ ؛ نویںسال کا خدا ؛ جان کی امان ؛ کوفیوں کا یزید ؛ بھول کال darwins monkey ہیں ۔ آپ اردو ادب میں نئی رائج ہونے والی صنف مائیکرو فکشن کے بانی اراکین میں بھی شمار کیا جاتا ہے ۔ آپ نے انہماک فورم کے بانی و محرک سید تحسین گیلانی کے ساتھ مل کر دن رات مائیکرو فکشن تحریک چلائی اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج اردو ادب کا ہر بڑا نام مائیکرو فکشن اور فلیش فکشن لکھتا ہے ۔ مائیکرو فکشن تحریک میں آپ کے ساتھ عظیم ادیب ستیہ پال آنند کا سایہ بھی ساتھ رہا ۔ اس کے علاوہ آغا گل ۔ نعیم بیگ ۔ باسط آزر ۔ نور العین ساحرہ ۔ خواجہ عاکف محمود ۔ فارس مغل ۔ شین زاد ۔ ہما فلک ۔ فاطمہ عمران ۔ ساجد ہدایت ۔ ڈاکٹر لبنی زبیر عالم ۔ افتخار احمد ۔ شفقت محمود ۔ مریم تسلیم کیانی ۔ رکاءاللہ شیخ ۔ قاری ساجد نعیم ۔ معافیہ شیخ ۔ غلام حسین غازی ۔ امین بھایانی ۔ حسن امام ۔ خالد قیوم تنولی ۔ کرنل خاقان ساحد ۔ اقبال حسن خان ۔ نگہت نسیم ۔ طلعت زاہرہ ۔ ابصار فاطمہ جعفری ۔ مریم ثمر ۔ فارحہ ارشد ۔ محمد جاوید انور بوبک ۔ میاں امجد جاوید ۔ معظم شاہ ۔ اسماء سلامت ۔ عبدالمالک ۔ اقبال مٹ ۔ مرید عباس خاور۔ عرفان شہود۔ ممتاز حسین سید۔ غلام حسین غازی ۔ زینب حسن ۔ فوزیہ رانا ۔ مریم رانا ۔ روما رضوی ۔ سید ماجد حسین شاہ ۔ ناصر صدیقی ۔ عطاءالرحمان خاکی ۔ فیضل سعید ضرغام ۔ فیصل قریشی ۔ فیصل جوش۔ نصرت اعوان ۔ سیدہ آیت تسکین مرتضی ۔ ۔ افضال خان احمدانی ۔ ارشد محمود ہادی ۔ جواد حسین بشر ۔ عقیل الرحمان ۔ غفار پاشا مرحوم ۔ احمر اکبر ۔زعیم رشید۔ اس کے علاوہ بھارت اور جموں کشمیر سے ابرار مجیب ۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی ۔ راجہ یوسف ۔ طارق شبنم ۔ مشتاق احمد نوری ۔ شبیر احمد ۔ شموئیل احمد ۔ سلام بن رزاق ۔ صغیر رحمانی۔ مرحوم مشرف عالم ذوقی ۔ اقبال حسن آزاد ۔ ہاشم خان ۔ افضال انصاری۔ احمد نعیم ۔ راجہ یوسف ۔ سلیم سرفراز ۔ زاہد مختار ۔ عادل فراز ۔ ارشد اقبال ۔ مہر افروز ۔ انجم قدوائی ۔ مصاعد قدوائی۔ ارشد عبدالحمید ۔ خورشید طلب ۔ غلام مصطفی بستوی ۔ عبدالغنی غیور ۔ امریکہ سے نسیم سید۔ ناصر حسین ناصر ۔ شمسہ نجم ۔ نور العین ساحرہ ۔ رضیہ کاظمی۔ صداقت حسین سید ۔ امین صدرالدین بھایانی ۔ امجد علی شاہ ۔ آسٹریلیا سے نگہت نسیم ۔ کوثر جمال ۔ جرمنی سے ہما فلک ۔ نیوزی لینڈ سے سلمی جیلانی ۔ سعودی عرب سے محمود ظفر اقبال ہاشمی ۔ کوثر بیگ۔ قطر سے امواج ساحل ۔ بیلجیم سے فرحین جمال ۔ انگلینڈ سے جمیل الرحمن ۔ فرح دیبا ورک ۔ نوشی قیصر ۔ فوزیہ قریشی ۔ دبئی سے عتیق الرحمان ۔ اور دیگر جہاں کہیں بھی اردو لکھی پڑھی اور بولی جاتی ہے جیسے نابغہ روزگار افسانہ نگار و ناول نگار ڈرامہ نویس ناقدین وغیرہ تحریک کا حصہ رہے ۔ اور تقریبا یہی نام فلیش فکشن تحریک کا بھی حصے بنے ۔ مشرف عالم ذوقی بھارت ۔ سلام بن رزاق بھارت ۔ اور محمد الیاس پاکستان جمیل الرحمان انگلینڈ جیسے عظیم اور استاد ادباء کا کہنا تھا کہ ہم لوگ صرف اور صرف محمد زبیر مظہر پنوار کی وجہ سے اس تحریک سے جڑے اور ان ہی کے لیے خاص طور پر فلیش فکش لکھا ۔ وگرنہ ہم چھوٹی کہانیاں نہیں لکھا کرتے ۔ مشرف عالم ذوقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ایک دن پنوار کا ہو گا ۔ یہ لڑکا سارتر کی طرح خود کے جسم میں کیلیں لیے ہوئے اور اپنی کہانیوں میں سب کو حیران اور پریشان کر دیتا ہے ۔ لیجنڈ ادیب محمد الیاس کہتے ہیں کہ جس موضوع کو میں گزشتہ سات سال سے سوچ رہا تھا ۔ لیکن لکھنے کی جسارت نہ کر پایا اور یہ کل کا لڑکا زبیر پنوار تاریخ نامی افسانہ لکھ کر حیران کر گیا ۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ محمد حمید شاہد تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ افسانہ اردو ادب میں مابعدجدیت کی تاریخ کے طور پر شمار کیا جا سکتا ۔معروف نقاد لیجنڈ شاعر جمیل الرحمان کہتے ہیں کہ پنوار جہاں ہے وہ خود کو ضائع کر رہا ۔ پنوار تنقید فکشن اور فلسفی کی سوجھ بوجھ رکھنے والا بڑا انسان ہے۔ لیجنڈری ستیہ پال آنند کہتے ہیں ۔ کہ پنوار ایک جینیئس نوجوان افسانہ نگار ہے ۔ محمد زبیر مظہر پنوار کو بطور ایک ادیب کے شاید ہی پوری دنیا کا کوئی حصہ ہو گا ۔ جہاں اردو پڑھی لکھی اور بولی جاتی ہو وہاں کا لکھنے والا نہ جانتا ہو ۔آپ نے اخبارات میں کالمز بھی لکھے ہیں ۔ آپ پرنٹاس راولپنڈی اور تکثیر لاہور سے وابستہ رہے ۔ دبستان ادب ۔ صبح بہاراں ۔ خیبر ۔ جرس ادبی مجلہ ۔ ناؤ ادبی مجلہ ۔ ندائے گل ادبی میگزین وغیرہ سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ ۔ آپ بطور ڈرامہ نویس کے اب اپنی قسمت حلقہ شوبز میں آزما رہے۔ اس کے علاوہ آپ درجن بھر سے زائد افسانچے ۔ پچاس سے زائد مائیکرو فکشن ۔ درجن بھر سے زائد فلیش فکشن ۔ سو کے قریب مختلف قسم کے مضامین ۔ کالم ۔ اور پچاس سے زائد غزلیں نظمیں اور نثری نظمیں لکھ چکے۔ آپ کا شاید ہی کوئی حرف ہو۔ جو ڈیجیٹل میڈیا سے پرنٹ میڈیا اخبارات میگزین ادبی میگزین وغیرہ میں نہ شائع ہوا ہو ۔ آپ کی کہانیاں امریکہ کے اردو اخبارات سے لے کر بھارت یورپ پاکستان کے مختلف میگزینوں ادبی مجلوں میں شائع ہو چکیں۔ جن میں ناؤ۔ مکالمہ ۔ صبح بہاراں ۔ جرش ۔ ندائے گل ۔ مشرق ۔ خیبر ۔ دبستان ادب۔ انہماک ادبی مجلہ۔ پرنٹاس ۔ تکثیر ۔پندار۔ تریاق۔ اودھ نامہ۔ سہارا اردو۔ علی گڑھ میگزین۔ ادب لطیف۔ سفر در سفر۔ لازوال۔ کشمیر ٹائمز۔ جموں کشمیر۔ حرف بہ حرف۔ جیسے اخبارات ادبی مجلے اور میگزین شامل ہیں۔ آپ کی کئی کہانیاں ہندی فارسی عربی اور انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔