Wp/khw/فہیم شناس کاظمی

From Wikimedia Incubator
< Wp‎ | khw
Wp > khw > فہیم شناس کاظمی
ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی
آژیک سید فہیم اقبال
(1965-05-11) 11 May 1965 (age 58)
ضلع نوابشاہ، صوبہ سندھ، پاکستان
ادبی نام فہیم شناس
پیشہ شاعر، کالم نگار، مترجم، پروفیسر
ملک wp/khw/پاکستانپاکستانی
قومیت مہاجر
تعلیم ایم اے (اردو)
پی ایچ ڈی (مقالہ: عزیز حامد مدنی: حیات و خدمات)
یونیورسٹی سندھ یونیورسٹی
کراچی یونیورسٹی
اصناف غزل، نظم، کالم، ترجمہ
نویوکو کوروم سارا جہاں آئینہ ہے (شاعری)
خواب سے باہر (شاعری)
راہداری میں گونجتی نظمیں (شاعری)
سارتر کے مضامین (تراجم)
ایوارڈ و اعزازات آہٹ ایوارڈ بہترین شاعر
جناح ایوارڈ بہترین شاعر و نقاد
نشان سپاس خانۂ فرہنگ ایران کراچی

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی (پیدائش: 11 مئی، 1965ء) پاکستانو نامور شاعر، کالم نگار، مترجم اوچے اردو زبانو پروفیسر آسور۔

حالات زندگی و تعلیم[edit | edit source]

فہیم شناس 11 مئی، 1965ء ضلع نوابشاہ، صوبہ سندھ، پاکستانہ پیدا ہوئے۔

شاعری[edit | edit source]

  • 1999ء - سارا جہاں آئینہ ہے
  • 2009ء - خواب سے باہر
  • 2013ء - راہداری میں گونجتی نظم (ناشر: دنیازاد پبلی کیشنز کراچی)

تراجم[edit | edit source]

  • 2002ء - سندھ کی آواز (جی ایم سید کے عدالتی بیان کا ترجمہ)
  • 2012ء - سارتر کے بے مثال افسانے (ناشر: سٹی بک پوائنٹ کراچی)
  • 2012ء - سارتر کے مضامین (ناشر: سٹی بک پوائنٹ کراچی)

ترتیب و تدوین[edit | edit source]

  • 2004ء - تیرے عشق نے مالامال کیا (صابر ظفر کی گیتوں اور غزلوں کا انتخاب)
  • 2010ء - بوئے گل نالۂ دل (جلد اول) شیخ ایاز (ناشر: محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ)
  • 2010ء - حلقہ مری زنجیر کا (جلد دوم) شیخ ایاز (ناشر: محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ)
  • 2016ء - ژاں پال سارتر کے انٹرویو (ناشر: فکشن ہاؤس لاہور)

صحافت[edit | edit source]

اعزازات[edit | edit source]

  • آہٹ ایوارڈ بہترین شاعر پاکستان کا پرچم
  • جناح ایوارڈ بہترین شاعر و نقاد پاکستان کا پرچم
  • نشان سپاس خانۂ فرہنگ ایران کراچی ایران کا پرچم

نمونۂ کلام[edit | edit source]

غزل

تمہارے بعد جو بکھرے تو کُو بہ کُو ہوئے ہم پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم
تمام عمر ہَوا کی طرح گزاری ہےاگر ہوئے بھی کہیں تو کبھُو کبھُو ہوئے ہم
یوں گردِ راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے پھر آسمان ہوئے اور چارسُو ہوئے ہم
رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام کبھی نہ دستِ ہُنر مند سے رفو ہوئے ہم
خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا شناسؔ پھر کہیں موضوعِ گفتگو ہوئے ہم[1]

حوالہ جات[edit | edit source]