Wn/ur/مرزا عبدالقادر بیدل
پیدائش: 1644ء– وفات: 5 دسمبر 1720ء) ہندوستان میں فارسی زبان کے مشہور ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”دنیا میں چار اشخاص یعنی محی الدین ابنِ عربیؒ ، شنکر اچاریہ ، میرزا بیدل اور ہیگل کے طلسم میں جو شخص گرفتار ہو گیا تو وہ مشکل سے رہائی پاسکتا ہے۔
سوانح
”سر چشمۂ زُلالِ سعادت، محیط ِآبرُوے سیادت میر ابوالقاسم تِرمذی قُدِّسَ سِرِّہُ“نے پیدائشِ بیدِل کی دو تا ریخیں ”فیضِ قدس“ اور”انتِخاب“سے نکالیں ۔
تاریخ کہنے والے نے تاریخ کہہ کر اپنی قُدرتِ تا ریخ گوئی کی نمائش نہیں کی تھی بلکہ بیدِل کے رُتبۂ بُلند و مستقبلِ ارجمند کی پیش گوئی کی تھی۔ میر ابوالقاسم تِرمذی کی مستقبل آشنا نگاہ، طفلِ شیر خوار عبد القادِر کو انتِخابِ روز گار و قُدسی شِعار انسان کے روپ مِیں دیکھ رہی تھی۔ بیدِل کے والد میرزاعبدُ الخالق اہلِ تصوُّف مِیں ممتاز و صاحبِ مسندِ ارشاد تھے اور ترکِ ما سوا اللہ اُن کا مسلک تھا۔ پیر نصیر الدین نصیر آف گولڑہ شریف کے مطابق مرزا بیدل کا تعلق اعوان فیملی سے تھا جو نسبی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں ساڑھے چار سال کی عمر مِیں بیدِل شفقتِ پِدَری سے محروم ہو گئے اور چھ (6) سال کی عمر مِیں والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بیدِل کے چچا میرزا قلندر، تصوُّف مِیں میرزا عبد الخالق کے تربیت یافتہ تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد میرزا قلندر نے کمال شفقت سے بیدِل کو اپنے آغوش و دامنِ تر بیت مِیں جگہ دی۔ بیدِل عمر کی دَسویں منزل مِیں تھے کہ مکتب مِیں اک ایسا وا قعہ رُو نما ہُوا کہ اُس نے بیدِل کی تعلیمی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ مکتب مِیں دو اُستاد کسی اِختِلافی مسئلے پر بحث کر ر ہے تھے۔ دونوں ایک دُوسرے کونیچا دکھانا چاہتے تھے۔ بحث،کج بحثی اور کج بحثی، ہاتھا پائی کے مر حلے مِیں داخل ہو گئی۔ ساتھ ہی زَبان سے مغلّظات کی بوچھار بھی ہو رہی تھی۔ یعنی یہ دونوں کی کم ظرفی و کم عقلی کا ناقابلِ مُعا فی مظاہرہ تھا۔ میرزا قلندر اُس وقت مکتب مِیں موجُودتھے۔ اُستادوں کی کمینہ فطرت اور اخلاق باختگی کا یہ منظر دیکھ کر وُہ سو چنے پر مجبور ہو گئے کہ عُلوم ِظاہر کے معلِّموں کا یہ اخلاق ہَے تو ایسی تعلیم ہر گِز بیدِل کے لیے سودمند نہیں ہو سکتی۔ میرزا قلندر نے بیدِل کو ایسی بے رُو ح تعلیم سے محفوظ رکھنے کا فیصلہ کِیا۔ یوں بھی بیدِل قر آن شریف ختم کر چکے تھے۔ عربی قواعِد، صرف و نحواور فارسی نظم و نثر پر اُنہیں قُدرت حاصل ہو چکی تھی۔ مکتب چھڑاکر میرزا قلندر نے بیدِل کی تعلیم و تر بیت کا جو حکیمانہ طریقہ اختِیار کِیا وُہ اشارئہ غیبی محسوس ہو تا ہَے۔ میرزا قلندر نے بیدِل کو ہدایت کی کہ وُہ متقدِّمین اور متاخِّرین اہلِ علم و ادب و شعر کے کلامِ نظم ونثر کا عمیق مطالِعہ کریں اور مطالِعے پر مبنی انتِخابِ نظم ونثر روز اُنہیں سنائیں۔ تر کِ مکتب کے اِس فیصلے نے بیدِل کی تعلیمی و ادبی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتَّب کیے۔ چچا کی ہدایت اور اپنے شوقِ مطالِعہ سے بیدِل نے رُو د کی، امیر خُسرَو، جامی وغیرہ تمام اساتِذہ قدیم و جدید کے کلامِ نظم ونثر کا مطالِعہ بنظرِ تعمُّق و تا مُّل کِیا۔ تحصیلِ علم، مطالِعۂ کتب ہی پر منحصر نہیں تھی۔ خوش بختی سے بیدِل کو ایسے علما و صوفیا کی صحبتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا جو علمِ منقول و معقول کے جامع تھے۔ خود بیدِل کی طبعِ اخّاذ کا یہ عالم تھا کہ جو سنتے اور پڑ ھتے، لوحِ ذہن پر نقش کالحجر ہو جاتا۔ بیدِل سخن فہمی و سخن سنجی کی خُداد ادو غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِس لیے بہت جلد معائب و محاسنِ سخن اور رُموز ِ شعر گوئی سے کما :حقّہ آگاہ ہو گئے اوربے اختِیارکلام موزُوں وارِد ہونے لگا۔ بیدِل کا ابتِدائی کلام کیفیت و کمیّت ہر دو اعتِبار سے قابلِ لحاظ تھا، شیخ کمال اُس پر اظہارِ پسندیدگی اور بیدِل کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اِس کے با وُجُود اُنہوں نے اپنے ابتِدائی کلام کو محفوظ رکھنے کا اہتِمام نہیں کِیا۔ ابتِدائی کلا م سے یہ بے اعتِنائی اِس بات کا ثُبوت ہَے کہ بیدِل پیدائشی طورسے بُلند معیار و نادِرئہ روز گار تھے۔ جو شاعر سَبکِ ہندی کو بام ِعرُوج پر پہنچانے کے لیے پیدا ہُواتھا، وُہ معمولی اسالیب پرقناعت نہیں کر سکتا تھا۔ بیدِل ابتدا مِیں رَمزی تخلُّص کرتے تھے۔ دیبا چۂ گلستانِ سعدی کے مندرِجہ ذَیل قِطعے سے متاثِّر ہو کر اُنہوں نے اپنا تخلُّص”بیدِل“ اختِیار کِیا ۔
گر کسے وصفِ اُو ز من پُرسد
بیدِل از بے نشاں چہ گوید باز
عاشقاں کُشتگانِ معشوق اند
بر نیا ید زکُشتگاں آواز!
شعر گوئی لڑکپن سے ذریعہ اظہار بن چکی تھی۔ کلام ِاساتِذہ کے بالاستِیعاب مطالِعے اور اہل اللہ و سخنورانِ باکمال کی رہ نمائی و شاگِر دی نے ملکۂ شاعری کو صیقل کِیا۔ تازہ گوشُعَراکے خُصوصی مطالِعے سے اُسلوب مِیں پختگی پیدا ہُوئی۔ اِس کے نتیجے مِیں بیدِل کی قوّتِ ابداع کا ظُہورہُوا۔ شدّتِ جذبات، نُدرتِ احساس اور معتقداتِ صحیح نے تخلیقِ معانیِ تازہ کی ایسی صلا حیت و قد رت عطا کی کہ بیدِل نے شاعری اور زَبانِ فارسی کے مجتہد کا مقام پا یا۔ حقائق کافلسفیانہ بیان، تجرِبات کی منطقی تفہیم اور ابداع و اختِراع کی قوّتِ عظیم سے بیدِل نے ایسا قصرِ طِلِسمِ معانی تخلیق کِیا کہ اُن کی نظم و نثر، فارسی ادب اور سَبکِ ہندی کا بے مثال و گِرانقدر سرمایہ قرار پائی۔ یہ شرَف اُن سے قبل و بعد، کسی دُوسرے شاعر کو حا صل نہیں ہُوا۔ بحیثیت سالکِ راہِ تصوُّف بیدِل کی شخصیت اِتنی متاثِّر کُن تھی کہ مخالف بھی، فیضِ صحبت سے ہم خیال ہوجاتے تھے۔ اخلاق مِیں اِسقدر گِرِفت کہ دشمن، دوست بن جاتے۔ بیدِل کی زندگی نو عمری سے طہارتِ قلب، عِفّتِ ذہن اور اخلاقِ فاضلہ کا نمونہ تھی۔ وُہ تمام عمر بادئہ تو حید سے سرشار اور سنّتِ نبوی پر کار بند رہے۔ علم کی وُسعت اور استِد لال کی گِیرائی کا یہ عالم تھا کہ معترِض کے سامنے اُن کے موقِف کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہتا۔ بیدِل کا بیان ہَے کہ اُنہوں نے رَمل ،جَفر اور علمِ نُجوم پر مذکورہ عُلوم کی مستند کتابوں سے احکام اور مواد فراہم کرکے ایک کتاب ” تالیف ِاحکام“ تصنیف کی تھی۔ مگر یہ کتاب نا پید ہَے۔ خوشگو اُن کے علمی رُسوخ و تبحُّر کا ذکر اِن الفاظ مِیں کرتے ہَیں : ”بالجُملہ آن جناب از اِلہٰیّات و رِیاضیات وطبیعیّات، کم وبیش چاشنی بُلند کردہ بود وبہ طبابت ونُجوم ورَمل وجَفروتاریخ دانی وموسیقی،بِسیار آشنا بود۔ تمام قصّۂ ”مہا بھارت“کہ در ہندیان ازان معتبر کتا بے نیست، بیاد داشت و در فنِ اِنشاء بے نظیر۔ چنانچہ
”چہار عُنصُر“ و رُقعات ِ اُو
برین دعویٰ دلیل ساطِع است“۔
بیدِل کی سیرت و شخصیت کی عظمت اور علمی کمالات جہاں اُن کے ملا قا تیوں کے لیے حیران کُن تھے، وہاں بیدِل کی طبیعت کی سادگی،شِگُفتہ مزاجی اور وضعداری اُن کے لیے باعِثِ کشش و محبوبیت بھی تھی۔ بیدِل کا گھر تر بیت گاہِ تصوُّف اور مدرسئہ شعرو ادب تھا۔ مختلف اذواق واحوال کے شا ئقینِ علم و ادب بصد شوق واہتِمام اُن کی شبانہ محفلوں مِیں شریک ہوتے تھے۔ بیدِل دن کے معمولات سے فارغ ہوکر، شام کو دیوان خانے مِیں رونق افروز ہوتے۔ اُن کے احباب وشیفتگانِ شعر وادب شام ہوتے ہی پروانہ وار آنا شُرُوع ہو جاتے۔ مہمانوں کی خاطر مُدارات کے لیے اُن کا غلام مضمون کمر بستہ رہتا اور بیدِل کے حُقّے کی چلم بھی ٹھنڈی نہ ہونے دیتا۔ اُن محفلوں مِیں بیدِل اپنی زندگی کے تجرِبات بیان کرتے۔ شعر و ادب اور شریعت و طریقت کے نِکات ودقائق پر گفتگو فر ماتے۔ مسائل و حالاتِ حاضرہ کا تجزِیہ کرتے۔ اندازِ بیان شِگُفتہ اور انتِہائی شائستہ ہوتا۔ وُہ شُرَکاے محفل پربحصّۂ مساوی توجُّہ فرماتے۔ بیدِل کی مجلسِ شبا نہ مِیں شر کت کے لیے نہ مذہب و ملّت کی قید تھی نہ امیر و غریب کاامتِیاز۔ اُن محفلوں مِیں بیدِل کی شخصیت نکھر کے سامنے آتی تھی۔ حاضرین محسوس کرتے تھے کہ کعبۂ حقائق ومعانی اور قبلۂ بلا غت و فصاحت کہلانے کا مستحِق یہی سر بُلند وبے نیاز صاحبِ کمال ہَے۔ خوشگو لکھتے ہَیں ۔ ”قسم بجانِ سخن کہ جانِ من است وخاکپاے اربابِ سخن کہ ایمانِ من است کہ فقیر درین عمر کہ پنجاہ و شش مر حلہ طے کردہ، باہزاران مردُم ِ ثِقہ بر خوردہ می باشم لیکن، بہ جامعیّتِ کمالات وحسنِ اخلاق و بُزُرگی وہمواری وشِگُفتگی و رسائی وتیز فہمی و زُود رسی واندازِ سخن گُفتن وآدابِ معاشرت وحسنِ سلوک ودیگر فضائلِ انسانی ہمچو وے ندیدہ ایم“۔ اُن شبانہ مجلسوں کی رونقیں تا حیاتِ بیدِل قائم رہَیں۔ ازعہدِ عالمگیر تا زمانۂ محمد شاہ رنگیلا۔ بیدِل کے آفتابِ شاعری وشخصیت کی شُعاعوں سے شاہجہاں آباد کے ایوان ہاے علم و ادب ہی نہیں، قصورِ اِمارت و سیاست بھی منوّر ہُوئے۔ اُن کی شاعری کی شہرت و اثر انگیزی کی ایک روشن دلیل یہ ہَے کہ ا ورنگ زیب عالمگیر جیسے باجبَرُوت مغل شہنشاہ کے دل مِیں کلام بیدِل کے مطالِعے کا شوق پیدا ہُوا۔ عالمگیر نے وسیعُ الاطراف سلطنت کے انتِظام و اشتِغال سے، دیوانِ بیدِل کے مطالِعے کے لیے وقت پس انداز کِیا اِتنی توجُّہ سے اُن کی شاعری کا مطالِعہ کِیا کہ اشعارِ بیدِل اُس کے قلم پر رواں ہو گئے۔ عالمگیر اپنے خطوط مِیں اشعارِ بیدِل بے تکلُّف و بر محل استِعمال کرتاہَے۔
ایک خط مِیں اسد خاں کو یہ مقطع لکھا:
حرص قانع نیست بیدِل ورنہ اسبابِ معاش
آنچہ ما درکاردارم اکثرے در کار نیست
ایک فر مان مِیں شاہزادہ اعظمشاہ کو امن و امان قائم رکھنے اور راستوں کو رہزنوں سے پاک کرنے کی ہدایت کرتے ہُوئے بیدِل کا یہ شعر لکھا:
من نمی گو یم، زیان کُن یا بفکرِ سود باش
اے ز فر صت بے خبر! در ہر چہ باشی زُود باش
عالمگیر ایک مکتوب مِیں مظلوموں کو جلد انصاف فراہم کرنے کی اہمیت، بیدِل کے اِس شعر کے ذریعے اعظمشاہ کے ذہن نشین کراتے ہَیں:
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دُعا کردن
اِجا بت از درِ حق بہرِ استِقبا ل می آید!
اورنگ زیبنے یہی شعر ”بترس از آہ مظلوماں“ایک خط مِیں اسد خاں کوبھی تحریر کِیابیدِل کے نام کی تصریح کے ساتھ۔ بیدِل اپنے عہد کے خاصۂ خاصانِ شعر و ادب اور سردارانِ دین و سیاست مِیں مقبول وممتاز تھے۔ اُن افراد کی طویل فِہرِست ہَے جو بیدِل کی نگاہ التِفات کو اپنے لیے باعِثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ اسلامی ہندکے ممتاز عالم شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی کے والد بُزُرگوار قاضی شاہ عبد ُالرحیم بھی بیدِل کے مدَّاح و معتقِد تھے۔ قاضی شاہ عبد ُالرحیم بُلند مقام ادیب و شاعر تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر اُن کے لیے اپنے دل مِیں نہایت قدر وعزّت کے جذبات اور خواہشِ ملاقات رکھتا تھا۔ قاضی شاہ عبد ُالرحیم کے توکُّل و استِغناءکا یہ عالم تھا کہ مطلق العِنان و باجبَرُوت مغل شہنشاہ کی دعوتِ ملا قات کو شرَف ِپزیرائی عطا نہیں کِیا۔ :مگردَر وِیشِ خدا مست بیدِل کے آستانے پرجبہہ سائی کوباعِثِ شرَف و سر فرازی سمجھا۔ قاضی شاہ عبد ُ الرحیم نے عُلُوِّمقامِ بیدِل کا اعتِراف اور اُن کے لیے اپنے جذباتِ سِتائش کا اظہا ر نظم ونثر مِیں کِیا۔ جواب مِیں بیدِل نے قاضی شاہ عبد ُالرحیم صاحب کو لکھا: ”یادِ فقراء حرکت است از نقاب بے چونے۔ در ہر دلے کہ پر توِ توجُّہ آن تافت، خود را آئینہ دارِ ہمان کیفیّت دریافت۔ خطراتِ قلُوب ِ خاصان کہ ملہم اسرارِ رّبانی اند، اداے این شفقت ہا از حق، بحق تواند بود۔.۔.“۔ 1075ھ سے 1096 ھ تک شمالی ہند مِیں بیدِل نے مستقل قِیام کے لیے کسی شہر کا انتِخاب نہیں کِیا۔ اکبر آباد،متھرااور دہلی مِیں دَر ویشانہ آمد و رفت رکھّی۔ اِن شہروں مِیں مختلف وقفوں سے کئی کئی سال عارضی طَور سے مقیم رہنے کے بعد، ستائیس (27) جماد الثانی 1096ھ مطابق اکتیس (31) مئی 1680ء مِیں بیدِل ”متھرا“سے مع اہل و عِیال، مستقل قِیام کے لیے دہلی تشریف لائے۔ نواب شکر اللہ خاں خاکساراُن کے مستقلا دہلی آنے پر بہت خوش ہُوئے اور اپنے فر زند شاکر خاں کو بیدِل کے لیے عمدہ مکان تلاش کرنے پر مامور کِیا۔ اُنہوں نے جلد ہی شہر پناہ اور دہلی دروازے کے باہر محّلہ ”کھیکریاں“مِیں گُزَر گھاٹ کے کنارے، لُطف علی کی حویلی مبلغ پانچ ہزار (5000)روپے مِیں خرید کر بیدِل کی نذر کی۔ اور دو روپے یومیہ دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے مقرّر کر دیا۔ اُس زمانے مِیں ماہر کاریگر کی آمدنی پانچ آنے روز تھی۔ خلیق احمد نظامی ”تاریخ مشائخ چشت“مِیں لکھتے ہَیں کہ شاہ کلیم جہان آبادی (معاصرِ بیدِل)کے پورے مہینے کے خرچ کے لیے دو روپے کا فی ہوتے تھے۔ اِس معیار سے نواب شکراللہ خاں کے مقرّر کردہ یومیہ دو رو پے بیدِل کی معاشی خوش حالی و فارغُ البالی کی ضمانت تھے۔ مزید یہ کہ اُن کی طبّی مہارت بھی معقول آمدنی کا ذریعہ تھی۔ بیدِل کی بنائی ہُوئی دوائیں دہلی مِیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ غرَض وُہ باقی زندگی مالی اعتِبار سے خوش اَوقات رہے۔ بیدِل کی فراوانیِ زَر کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہَے کہ اُنہوں نے اپنے کُلّیات ”چہار مصرع“کے ہم وزن زر و جواہر پَے ِ شکر و نیک فا ل خیرات کیے۔ کُلّیات کا وزن چودہ(14) سیر تھا۔ عالمِ شباب مِیں سیاحت یقیناً بیدِل کے لیے نشاط کا باعِث تھی، لیکن ایّامِ پیری مِیں گوشۂ عافیت کی خواہش فطری تقا ضا۔ دہلی مِیں قِیام اُن کے لیے اِسقدر موجِبِ راحت واطمینان ہُوا کہ پھر وہاں سے جنبش نہ کی۔ بیدِل نے مسلسل چھتّیس (36) سال دہلی مِیں بسر کیے۔ بیدِل نے کتنے نکاح کیے اور کن خاندانوں مِیں رشتۂ اِزدِواج قائم کِیا، اِس بارے مِیں تفصیلات نہیں ملتیں۔ اُنہوں نے اپنی مُتاہِّل زندگی کے متعلِّق بالعموم خاموشی اختِیار کی ہَے۔ خوشگو چار نکا حوں کا ذکر کرتے ہَیں۔ لیکن یہ امر یقینی ہَے کہ بیدِل کی پہلی شادی بعمر پچّیس (25) سال 1079ھ مِیں ہُوئی۔ خود اُنہوں نے شادی کی تاریخ کہی”بشگُفت گُلِ حدیقۂ یُمن“ سے 1079ھ نِکلتی ہَے۔ شادی کو اکتالیس (41) سال گُزَرنے کے بعد یکم رجب 1120ھ کو بیدِل کے گھر بیٹا پیدا ہُوا، یہی اُن کی پہلی اورآخری اولاد تھی۔ دادا کے نام پربّچے کا نام عبد ُالخالقرکھّاگیا۔ شادی اور بّچے کی ولادت مِیں اکتالیس سال کا وقفہ اِس امکان کی طرف اشارہ کر رہا ہَے کہ گوہرِ مراد تیسری یا چو تھی بیگم کے صدف سے حاصل ہُوا ہوگا۔ بیٹے کی پیدائش پر بیدِل کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ فقراء مِیں فراخدلانہ خیرات تقسیم کی، دس تاریخیں کہیں، دوستوں اور بالخُصوص میرلُطف اللہ شکر اللہ خاں ثانی کو ولادتِ عبد الخالق کی خوشخبری کے خطوط لکھے۔ مرزا بیدل کے لاجواب کلام اور فن شاعری سے غالب جیسے فکر رسا رکھنے والے لوگ بھی متاثر هوئے بغیر نه ره سکے۔ غالب بیدل کی فارسی گوئ کے دل سے قائل تھے۔ چنانچه غالب نے انہی کے اسلوب کو اردو میں اختیار کیا۔ جس کا اظهار غالب کے اس شعر سے بخوبی هوتا ہے:
طرز بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد الله خاں قیامت ہے