Wn/ur/رابعہ زماں حضرت مائی صفورہ قادریہ رحہ

From Wikimedia Incubator
< Wn‎ | ur
Wn > ur > رابعہ زماں حضرت مائی صفورہ قادریہ رحہ

ضلع خانیوال کے ایک شہر عبدالحکیم سے سفر کا اغاز کریں تو ہیڈ سدھنائی سے تھوڑے کلومیٹر ہی آگے جڑواں نہریں (پنجابی:جوڑیاں ناراں) آتی ہیں جو اپنا پانی دریائے راوی کے اندر گرا رہیں ہیں۔ اگر وہاں پر تھوڑی غور سے نگاہ اِدھر اُدھر دوڑائیں تو ایک سبز گمبد نظر آتا ہے یہ رابعہ زماں حضرت مائی صفورہ قادریہ رحہ (Hazrat Mai Safoora Qadiriyya) کا دربار عالیہ ہے۔

رابعہ زماں حضرت مائی صفورہ قادریہ رحہ ایک صوفی بزرگ خاتون ، پرہیزگار مسلم ، نیک سیرت اور متقی صاحبہ تھیں.سلسلہ قادریہ سے تعلق ان کی زندگی کا ایک اہم پس منظر ہے۔آپ کا تعلق نوناری قبیلہ سے ہے۔

ایک روایت کے مطابق حضرت مائی صفورہؒ کے دادا خواجہ ابوالفتح داود فاروقی قادری نوناری اپنے وقت کے نامی گرامی عالم فاضل اور صوفی بزرگ تھے ۔ وہ قندھار کے راستے سدوزئی پٹھان کے ایک قافلے کے ساتھ ملتان تشریف لائے ۔ ملتان میں سیاسی افرا تفری دیکھ کر وہاں دل نہ لگا ۔آپ وہاں سے شورکوٹ   تشریف لائے اور اسے اپنا مسکن بنایا ۔اور وہاں پر اپنی خان گاہ کی بنیاد رکھی اور وہاں پر شرعی علوم اور روحانیت کا درس دینا شروع کر دیا اس وقت جھنگ میں سیالوں کا راج تھا ۔اس ریاست کا تیرہواں حاکم نواب ولی داد  خان بہت زیادہ سمجھدار رئیس تھا ۔انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے نزدیک ترین ریاستوں کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور ان کی ریاست کی حدود تلمبہ سدھنائی تک پہنچ گئی تھی ۔نواب ولی داد خان ، خواجہ داؤد قادری نوناری کی علمی  اور روحانی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے پرانے قصبے جڑالہ میں بطور مدد معاش کھوہ کھجی والا اور نقد عطیات دیے ۔ اور وہاں کے تمام انتظامات خواجہ ابو الفتح داؤد فاروقی قادری کے ذمے لگائے ۔خواجہ صاحب نے اپنے فرائض منصبی اچھے طریقے سے نبھائے اس طرح نواب والی داد خان کی نظر میں خواجہ صاحب کی قدرومنزلت بڑھ گئی ۔اس زمانے میں مدد معاش اور مفت اراضی کا عطیہ پانے والے سادات ،شیخ اور اشراف لوگو کے نام احترامن "میاں" پکارا جاتا تھا ۔اسی طرح خواجہ داؤد  کےخاندان میں مردوں کو" میاں" عورتوں کو "مائی" کا لقب دیا جاتا ہے اس نسبت سے مائی صفورہ کی اولاد میں میانہ مشہور ہے ۔جبکہ حقیقت  یہ ہے کہ مائی صفورہ نوناری قبیلے سے تعلق رکھتی تھی( حوالہ توریخ ضلع ملتان منشی حکم چند 1884ء )

حضرت مائی صیفورہ ؒکے والد ماجد کا نام میاں رستم علی نوناری تھا اور وہ شورگری کا کام کرتے تھے ۔زندگی نہایت ہی تنگدستی اور مفلوک الحالی سے بسر ہوتی تھی۔ رستم علی نوناری کو ونجھلی بجانے کا بہت شوق تھا اور اس شغل سے خاصی دلچسپی اور دل لگی تھی۔حضرت ماہی صیفورہؒ  نوناری قبلےسے تعلق رکتی تھی  ایک دن حضرت پیر صاحب المیر شاہ جمال اللہ جیلانی ؒ خضر ثانی کا ادھر سے گزر ہوا ساز دلنواز کی روح پرور آواز سن کر مسرور ہوئے اور آواز کی طرف چل پڑے جونہی وہ قریب پہنچے اور رستم علی کی نظر پڑی اس کے ہاتھوں سے ونجھلی گر پڑی ۔ پیر حیات المیر نے تشفی وتسلی کرائی اور دوبارہ سننے کی فرمائش کی تو رستم علی نے نہایت ہی پرسوز لہجہ میں ونجھلی سنائی اس پر پیر حیات المیر نے خوش ہوکر دعا دی اور بشارت بھی کی کہ تیرے گھر میں ولید کاملہ پیدا ہونے والی ہے ۔ اس کا نام صیفورہؒ رکھنا۔ 1155ھ/1742 ء میں موضع چڑالہ میں میاں رستم علی نوناری کے گھر آپ کی ولادت ہوئی آپ کا اصل نام مسماۃ صیفورہ تھا۔ عبادت کا شوق بچپن سے تھا ۔ جب صاحب ولایت مشہور ہوئیں تو لوگ آسپوراں کہنے لگے۔ آس بمعنی تمنا اور پوراں بمعنی پوری کرنے والی۔

حضرت ماہی صیفورہؒ کامزار پاکستان کےصوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور دربار سلطان عبدالحکیم  سے چند کلیو میٹر دور ایک گاوں میں واقع ہے اور اس جگہ کا نام حضرت ماہی صیفورہؒ کے نام پر ہے  جیسے بستی ماہی صیفورہ کہتے ہیں اور نوناری قبیلےکو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ھے جو شاہد  دنیا میں ہی کسی اورقبیلے کو حاصل  ہو اس قبیلے میں ولی کامل اور ولی کاملیہ ہیں  ولی کامل جن کا نام بابا بڈھنؒ ھے جو اپنے وقت کی ولی کامل تھے جن کا دربار تحصیل تاندلیانوالہ ضلع فصیل آباد ھیے اور جگہ کا نام اسی بزرگ کے نام پر ہے اور ولی کاملیہ حضرت ماہی صیفورہؒ ہے  ۔

والدین نے بچپن ہی سے آپ کو ہم قوم نور محمد نوناری سے منسوب کردیا تھا۔ آپ نے حضرت عبدالحکیمؒ سے بیعت کی اور چالیس چلے عبادت کے کئے۔ پھر خانقاہ پر آکرسکونت اختیار کی جب آپ بالغ ہوئیں حسب درخواست والدین شادی کرنا منظور فرمایا ۔ مائی سپوراں کے خاوند نور محمد نوناری نے اپنی اہلیہ مائی سپوراں سے طنزاًکہا آپ تو کامل ذات ولی اللہ کی مرید ہیں اور ہم دنیا سے بے نصیب یعنی لاولد جارہے ہیں تب مائی صیفورہؒ نے دل برداشتہ ہوکر مرشد خانہ کی طرف سفر کیا اور حضرت سلطان الاولیائؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دست بستہ عرض کی ۔ حضور نظر کرم فرمائیں کہ ہم بھی صاحب اولاد ہوجائیں تب حضرت سلطانؒ پاک سرکار نے مراقبہ فرمایا اور جواباً کہا بیٹی لوح محفوظ میں آپ کے نام اولاد نہیں ہے۔ مائی سپوراں بہت متفکر ہوئیں اس پر آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہؒ نے عرض کی ابا حضور میری قسمت کے جو دو بچے لوح محفوظ میں رقم ہیں اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں اپنی بہن سپوراں کو دے دوں ۔ حضرت سلطان اولیاءؒ  نے اجازت فرما دی تب حضرت عائشہؒ نے مائی سپوراں سے فرمایا میری پشت سے اپنی پشت ملا دو۔ اس طرح انہوں نے دو بچے ان کی صلب میں منتقل فرما دئیے اور ساتھ ہی فرمایا۔ لڑکے کا نام صالح محمد اور لڑکی کا نام صالحہ بی بی رکھنا چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ حضرت مخدومہ عائشہؒ بی بی تمام عمر مجرد رہے۔

حضرت مائی صیفورہؒ نے بیعت ہونے کے بعد اپنے مرشد حضرت سلطان اولیاء ؒ کی خدمت اقدس میں رہ کر باقاعدہ طور پر سلوک کی تمام منازل طے کیں اور مرشد پاک کے مبارک ہاتھوں سے خرقہ یاب ہوکر صاحب کشف وکرامات وحامل عالی درجات ہوئیں۔ روایت ہے کہ لنگر خانہ سلطانیہ کا تمام انتظام مائی سپوراں کے سپرد تھا اور آپ نے یہ کام بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ایک مرتبہ حضرت سلطان الاولیاءرح کے سالانہ عرس مبارک کے موقے پر کسی مجبوری کی وجہ سے یہ خدمت فنا ھوگی آپ حاضر نہ ھو سکیں بعد میں جب اعتزار وااعتراف قصور کے واسطے آستانہ عالیہ پر حاضرھوہیں اور اپنی غیر حاضری کی معزرت بھی کی اور ایک روپیہ نزرانہ بھی پیش خدمت کیا مگر حضرت مخدمہ نے نزانہ بھی قبول نہ فرمایا اور قدر ناراض ھوہیں کہ ماہی صیفورہؒ کو رساہی کے تمام راستے مسدود نظرآے اس پر ماہی سپوراں آزردہ خاطر پریشان حال دربار عالیہ پر حاضر ھوہیں اور خلفیہ عبدالوباب سے گزارش احوال کی سفارش وسیلہ کے طور پر ساتھ لاکر دوبارہ حضرت عاشہؒ کی خدمت میں معزرت خواہ ھو ہیں تو حضرت مخدمہ خلیفہ صاحب کے مقام ومرتبہ کے لحاظ اور سفارش کے پیش نظر ماہی سپوراں کے سر پر دست شفقت بھی رکھا اور پہلے سے زیادہ مہربانی فرماہی ۔

مزکور ہے کہ حضرت علی حیدرؒ

جو آپ کے حمعصر تھے کہ عورت کی کمالیت خاصہ مرتبہ علیا کے قائل نہ تھے اسی بناء پر آپ کی خلافت وخرقہ یابی سے تعرض وتنفر رکتھے تھے اس ضمن میں ایک بار آپ کے مابین مکالمہ بھی ھوا تو حضرت علی حیدرؒ لاجواب ھو گیے مگر پھر بھی تشفی نہ ھوہی ۔ تو سپوراں ماہی ان کو حمراہ لے کردریاے راوی کے لہرے مارتے پانی پر کپڑا بچھا دیا اور حضرت علی حیدرؒ کو نماز ادا کرنے کو کہا تو علی حیدرؒ نے کہا محجھ میں ایسی طاقت نہیں  ماہی صاحبہ نے اس چادر پر نماز پرھی اور جب چادر جھاڑی تو اس چادر سے گرد اٹھی تو علی حیدرؒ نے ان کے کمالات کا اقرار کرلیا ۔ اس علاقے میں مویشی کی چوری کثرت سے ھوتی تھی مشہور ھے جو شخص اس  گاؤں کی حد سے مویشی چراے تو اندھا ھوجاتا ھے اور جب تک واپس نہ کرے اندھا رھتا ھے اس لیےاس گاوں میں چوری نہیں ھوتی تھی سگ گزیدہ بھی آپ کی دعا سےاچھا ہوجاتا ہے

آپ کے عقیدت مندوں میں نوناری برادری کے علاوہ شاہ شجاع الملک بادشاہ افغانستان، نواب محمد شجاع خان ، نواب مظفر خان ملتان کے علاوہ افغانوں کے اکابرین شامل تھے۔ ان کے علاوہ جھنگ کے سیال برادری کے سرگانے ، شورکوٹ کے کاٹھیے، میلسی کے سادات، کھچی، بہاولپور کے لکھویرے، پیرزادے ،لنگاہ اور مختلف اقوام اور طبقات کے کثیر افراد جن میں علمائ، فضلاء اور بزرگانِ دین کے خلفاء تک شامل تھے۔


آپ کی وفات 9 ذی قعد 1209 ھ/28 مئی 1795 ء میں ہوئی ۔ آپ کے فرزند مولوی صالح محمد نے آپ کی خانقاہ عبدالحکیم شہر کے قریب دریائے راوی کے نزدیک بنوائی۔ آپ کی اولاد اسی گائوں میں آباد ہے ۔ آپ کے فرزند مولوی صالح محمد عالم وفاضل تھے اور ان کی تصانیف عربی، فارسی، سرائیکی میں بھی موجود ہیں اور آپ کا سالانہ عرس ہر سال 27,28مئی کو منعقد ہوتا ہے۔ اور عرس کے موقے پر آل پاکستان نوناری ایسوسی ایشن کی طرف سے شانِ اولیاء سیمینار  منعقد ہو تا ھے  جس میں ملک بھر سے نوناری برادری کے علاوہ دیگر افرادبھی کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں

نوناری قبیلے کے بارے میں مختلف روایات ہیں ایک روایت ھے کہ نوناری قبیلے کے لوگ ایران سے ہجرت کر کے آہیے ھیں جبکہ دوسری روایت یہ ھیے کہ یہ لوگ عرب سے آہیے ھیں لیکن اس بات پر سب متفیق ھیے کہ جب محمد بن قاسم  برصغیر آے تھے تو اس وقت عرب میں نوناری قبیلے کے لوگ نقل وحرکت اور بار برداری ی کےلیے جو زرایع اس وقت مجود تھے جن میں خچیر ،گھوڑے،گدھا وغیرہ تھے یہ سب کام نوناری قبیلے کے لوگ کرتے تھے اور محمد بن قاسم نے جنگ میں استعمال ہونے واے سازوسامان کی نقل و حرکت کے اسی قبیلے کے لوگوں کی خدمات حاصل کی اور اس کے ساتھ کحچھ لوگوں کو فوج میں  بھی شامل کیا محمد بن قاسم تو واپس چلیے گیے لیکن یہ لوگ یہی کے ہو کر رہ گیے یہ لوگ پھر پورے برصغیرمیں آباد ہیں اس کے علاوہ افغانستان ایران اور دیگر ممالک میں بھی موجودہیں۔

آپ نے دریائے راوی میں نماز پرھ کر جہاں علی حیدر جیسے شاعر اور چشتی سلسلے کے بزرگ کو حیران کیا ، وھیں آج بھی ھزاروں عقیدت مند آپ کے مزار عالیہ پر آتے ہیں اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔


کالم نگار : عمر فاروق میانا اردو وکی نیوز لاہور

زمرہ:کالم نگار عمر فاروق میانا اردو وکی نیوز لاہور