Wn/ur/خواجہ امیر احمد بسالوی تونسوی

From Wikimedia Incubator
< Wn‎ | ur
Wn > ur > خواجہ امیر احمد بسالوی تونسوی

خواجہ امیر احمد بسالوی کا شمار بسال شریف کے عظیم برزگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے دربار عالیہ تونسہ شریف، گولڑہ شریف اور میرا شریف سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ آپ کو خواجہ اللہ بخش تونسوی اور خواجہ احمد میروی نے خلافت سے نوازا۔

خواجہ امیر احمد بسالوی چشتی
ذاتی
پیدائش (1281ھ)


تھک سوڑہ تحصیل تونسہ شریف

وفات (21 ذی الحج 1357ھ بمطابق 1939ء)


بسال شریف

مذہب اسلام
والدین
  • قاری حافظ غلام محمد (والد)
سلسلہ چشتیہ
مرتبہ
مقام بسال شریف
دور انیسویں، بیسویں صدی
پیشرو خواجہ اللہ بخش تونسوی، خواجہ احمد میروی

ولادت[edit | edit source]

خواجہ امییر احمد بسالوی کی ولادت 1281ھ  میں قاری حافظ غلام محمد کے گھر تھک سوڑہ تحصیل تونسہ شریف میں ہوئی۔ آپ حضرت علی بن ابی طالب کے اخلاف میں سے تھے۔ آپ ایک زمیندار، نیک اور دیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے والد محترم کا شمار اپنے وقت کے چوٹی کے علماء میں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ آپ حافظ قرآن، قاری، متقی اور پرہیز بزرگ تھے۔

تعلیم و تربیت[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی کو بچپن ہی سے گھر کے دینی ماحول نے یاد خدا کی طرف راغب کیا۔ سن شعور پر پہنچنے کے بعد ابتدائی دینی علوم کی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں تکمیل علوم کے لیے مختلف مقامات پر متجر علماء سے اکتساب فیض کیا۔

بیعت و خلافت[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی تونسہ شریف کی عظیم روحانی درسگاہ کے جانشین خواجہ اللہ بخش تونسوی کے دست حق پرست پر شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ نے اپنے مرشد کی زیر سایہ سلوک کی تمام منازل طے کی۔ مرشد کامل نے آپ کو خلافت کا منصب عطا فرمایا۔

دربار تونسہ سے تعلقات[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی کے مرشد کامل حضرت خواجہ الله بخش تونسوی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ مرشد کامل کے وصال کے بعد ان کے جانشین خواجہ محمود احمد تونسوی بھی آپ پر خاص توجہ دیتے اور محبت سے پیش آتے تھے۔ خواجہ محمود احمد تونسوی نے اپنی جانشینی کے بعد دربار عالیہ تونسہ شریف کی جامع مسجد کی امامت وخطابت کے فرائض کی ذمہ داری خواجہ امیر احمد بسالوی کو سونپی۔

دربار گولڑہ سے تعلقات[edit | edit source]

خواجہ محمود احمد تونسوی ایک مرتبہ گولڑہ شریف تشریف لے گئے تو آپ کے ہمراہ خواجہ امیر احمد بسالوی بھی تھے۔ گولڑہ شریف میں آپ عام لوگوں کی صف میں تشریف رکھتے تھے کہ تاجدار گولڑہپیر مہر علی شاہ کی نظر آپ پر پڑ گئی۔ انہوں نے جب معلوم کیا تو پتا چلا کہ آپ خواجہ محمود احمد تونسوی کے ہمراہی ہیں۔ یہ سن کر تاجدار گولڑہ نے فرمایا کہ مجھے اس شخص سے اللہ اللہ کی خوشبو آرہی ہے۔ جب خواجہ امیر احمد بسالوی تبلیغ دین کے لیے بسال شریف تشریف لے گئے تو پھر بھی وقفے کے ساتھ گولڑہ شریف پیر مہرعلی شاہ کی خدمت میں حاضری دیتے رہتے تھے۔ گولڑہ شریف کے امام مولانا اللہ بخش کچھ عرصہ آپ کے ہاں بسال شریف میں امامت و خطابت اور تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ اکثر ان سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ سے اجازت لے کر آپ کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ جب پیر مہر علی شاہ کے وصال کی خبر بسال شریف پہنچی تو ان دنوں خواجہ امیر احمد بسالوی شدید علیل تھے اور چلنے پھرنے سے معزور تھے۔ اس کے باوجود آپ ڈولی میں بیٹھ کر گولڑہ شریف تشریف لے گئے۔ آپ نے گولڑہ شریف میں ہی رات کو قیام کیا اور رات بھر پیر مہر علی شاہ کے مزار کی طرف دیکھتے رہے۔

دربار میرا سے تعلقات[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی کے خواجہ احمد میروی سے گہرے مراسم تھے۔ جب میراشریف کی خانقاہ میں حضرت خواجہ میروی کو درس و تدریں کے لیے عالم دین کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے خواجہ امیر احمد بسالوی کو بسال شریف سے میرا شریف بلوا لیا۔ آپ تقریبا بیس برس تک دربار عالیہ میرا شریف کے دارالعلوم میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ خواجہ میروی آپ کی ذات پر بہت مہربان تھے۔ انہوں نے آپ کو خلافت عطا فرمائی۔ انہوں نے اپنے وصیت نامہ میں خواجہ امیر احمد بسالوی کو ان الفاظ میں یاد کیا

ترجمہ: مولوی امیر احمد میرے جگری دوستوں میں سے ہیں، ان کے دل میں عشق الہی روز افزوں ترقی کرے۔

سادات جنڈ کی راہنمائی[edit | edit source]

جنڈ کے سادات کا ایک گھرانہ اہل تشیع نظریات کی بنا پر اصحاب ثلاثہ پر کھلے عام کفر اور اعلانیہ تیرا بازی کرتا تھا ان کی یہ عادت و معمول پورے علاقے میں مشہور ہوگئی تھی۔ جب خواجہ امیر احمد بسالوی کو علم ہوا تو آپ نے ان کو اس فعل قبیح سے روکا اور ان کو عقائد اہل سنت و جماعت کی روشنی میں تبلیغ کی۔ اس خاندان کے نامور بزرگ سید محبوب علی شاہ نے باطل نظرات سے تائب ہو کر اہل سنت و جماعت کے عقائد کو قبول و تسلیم کرتے ہوئے آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہو گئے۔

سیرت[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی بچپن سے ہی یاد خدا میں سرشار رہتے تھے۔ پیشانی سے نور ولایت چمکتا نظر آتا تھا۔ عام بچوں سے مختلف عادات رکھتے تھے۔ دنیاوی کسی کھیل یا شغل میں بھی انہماک نہ ہوئے۔ دنیاوی معاملات سے بے خبر و خوف ذکر خدا اور ذکر رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وقت گزارتے تھے۔ شریعت مظہرہ کی پابندی سخی سے کرتے تھے۔ نماز روزہ اور دیگرنفلی عبادات کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ تمام عمر خلاف شریعت کوئی کام سرزد نہ ہونے دیا۔ آپ کی زندگی آپ کے حلقہ احباب کے لئے مشعل راہ تھی ۔ جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ خدا پرست اور دیندار ہو گیا۔ آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ وقت کے بڑے بڑے علماء اور مشایخ آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ کا اخلاق بہت بلند تھا اپنا ہو یا بیگانہ، دوست ہو یا دشمن سب سے اخلاق کے ساتھ پیش آتے۔ سخاوت میں آپ کی نظیر نہ ملتی، آنے والا کوئی بھی سائل کبھی بھی آپ کے دروازے سے خالی نہ گیا۔

وصال[edit | edit source]

خواجہ امیر احمد بسالوی نے 21 ذی الحج 1357ھ بمطابق 1939ء کو ذکر خدا کرتے ہوئے بسال شریف میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین بسال شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں کی گئی جس پر ایک خوبصورت مزار بنا ہوا۔ آپ کے مزار کے ساتھ عظیم الشان خوبصورت جامع مسجد آپ کی یادگار ہے۔ آپ کا عرس ہر سال 19، 20 اور 21 ذی الحج کو بسال شریف میں منعقد کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات جات[edit | edit source]