Jump to content

Wn/ur/آئین سٹائن کا نظریہ اضافیت

From Wikimedia Incubator
< Wn | ur
Wn > ur > آئین سٹائن کا نظریہ اضافیت

آئین سٹائین نے ایک صدی پہلے اپنا اضافیت کا نظریہ محض ایک الہام کے طور پر پیش کیا تھا – ایک ایسا الہام جس کے درست ہونے پر اسے سو فیصد یقین تھا، تاہم حسابی طور پر اس نظریے کو ثابت کرنا پوری ایک صدی تک ماہرینِ طبیعات و ریاضی کےلئے ایک چیلنج بنا رہا۔ اب فرانس، جرمنی اور ہنگری کے ماہرینِ طبیعات نے انتہائی عرق ریزی سے دنیا کے بہترین سُپر کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ایٹم کے تابع ذرّات یعنی نیوٹرون اور پروٹون کی کمیت دریافت کی ہے۔ یہ تابع ذرات خود بھی چھوٹے چھوٹے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں جو کہ کوارک کہلاتے ہیں اور جو شے اِن ذرات کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے اُسے گُلواون کا نام دیا گیا ہے۔

آزمائش کے جدید آلات کے ذریعے پہلی بار ممکن ہوا ہے کہ ان تابع ذرات کی کمیت معلوم کی جاسکے اور ایسا کرنے پر یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایٹم میں کوارک ذرات کی کمیت محض پانچ فیصد ہوتی ہے جب کہ انھیں باندھ کے رکھنے والے گُلو اون کی کمیت صفر ہوتی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ 95 فیصد کمیت کہاں گئی؟ فرانس، جرمنی اور ہنگری کے ماہرینِ طبیعات نے جمعرات 20 نومبر 2008 کو جو بیان جاری کیا ہے، اس کی رُو سے تابع ذرات کا 95 فیصد مادہ اُس توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو اِن ذرات (کوارک اور گلواون) کی باہمی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح آئین سٹائین کا وہ اندازہ پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے جو اس نے 1905 میں لگایا تھا اور جس کی رُو سے مادہ اور توانائی ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں جو کہ ایک دوسری میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ آئین سٹائین کی معروف مساوات E = mc2 کا مفہوم سادہ لفظوں میں یہی ہے کہ مادہ تبدیل ہو کر توانائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور توانائی اپنا روپ بدل کر مادہ بن سکتی ہے، جیسا کہ ’بِگ بینگ‘ کے بعد کائناتی ارتقاء میں ہوا اور چار سُو پھیلی ہوئی ہمہ گیر اور یکساں توانائی جگہ جگہ سِمٹ کر ٹھوس اجسام میں بدل گئی اور اس سِمٹاؤ سے اس ہمہ گیر خلا میں جگہ جگہ سقم یا ٹیڑھا پن آگیا اور یہی ٹیڑھاپن آج ٹھوس اجسام کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور کششِ ثقل کہلاتا ہے۔ چونکہ تمام اجرامِ فلکی توانائی کی بے پناہ مقدار کے سِمٹ کر ٹھوس ہو جانے کے باعث وجود میں آئے ہیں اس لئے ہر ٹھوس شے کا باطن اپنے اندر توانائی کا طوفان دبائے ہوئے ہے۔

ایٹم بم کی ساخت کے پیچھے یہی نظریہ کافرما تھا کہ مادے میں قید توانائی کو کسی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ تباہی مچا دےگی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اولین ایٹمی دھماکے سے بہت پہلے علامہ اقبال نے بھی الہام کے زور پہ کہہ دیا تھا کہ: حقیقت ایک ہے ہرشے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا نکلے، اگر ذرّے کا دِل چیریں !

فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق نے جو بیان جاری کیا ہے اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماہرینِ طبیعات نہ صرف ذرّے کا دِل چیرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ نئے آلاتِ پیمائش کی مدد سے انھوں نے آئین سٹائین کے سو برس پرانے اس مفروضے پر بھی مہرِ توثیق ثبت کردی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں اور زمان و مکان بھی ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔

حوالہ جات

[edit | edit source]

https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/11/081121_einstein_sen