Jump to content

Template:Wp/scl/منتخب مضمون

From Wikimedia Incubator

شینازبان ایک قدیم زبان ہے۔ وادیٔ سندھ سے آریائی تہذیب کے ایک قبیلہ ’’درد‘‘ اپنے ساتھ اس زبان کو لے کر وادیٔ سندھ سے ہجرت کرکے شمالی مشرق کی طرف کوچ کرگیا۔ زمانے کے ہاتھوں دھکے کھاتے کھاتے اوربھٹکتے بھٹکتے یہ قبیلہ آخرکار دردستان (شمالی علاقہ جات) میں پھیل گیا۔ دورانِ سفر اس کا بہت سارے لوگوں سے ملنا جلنا ہوا ہوگا اور آہستہ آہستہ کچھ لوگ تو نئے لوگوں میں ہی گھل مل گئے ہوں گے اور جو بچے کھچے شمالی علاقہ جات میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے وہاں پر نئے سرے سے زندگی شروع کی۔ اس دوران انہیں اپنی زبان کوتحریری طور محفوظ رکھنے کا خاص خیال نہیں رہا اور یہ زبان سے بولی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ یہ زبان کافی اہم اور مشہور زبان ہے۔ اس میں سنسکرت اور فارسی کے اکثر الفاظ موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس زبان میں سنسکرت کا اثر زیادہ رہا ہوگا۔ چونکہ قدیم زمانے میں سنسکرت ہی زیادہ مشہورزبان رہی ہے اور اس کے بعد فارسی کا دور دورہ شروع ہوا۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی رائج ہے  ۔ یہ قوم سندھ سے ہجرت کے بعد دریائے سندھ کے بالائی حصوں ،اس کے معاون دریائوں کے کناروں ،کشن گنگا ،دراس، استور، گلگت، ہنزا، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا کا تمام علاقہ بشمول گلگت ،ہنزا، نگر، دریل ،استور، اسکردو وغیرہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ کشن گنگا، دراس، تلیل ،گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے ہندوستان کے زیر انتظام ہیں۔ ڈاکٹر بدرس کے مطابق ڈوماکی (سازندوں کی زبان)کی تکمیل وتشکیل میں بھی ایک ایسی ہی زبان استعمال ہوئی ہے جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ ان کے بقول شینا اور بروشکی دونوں میں اس معدوم زبان کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر گریرسن پساچ کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے ۔۔۔۔۔۔