Wn/ur/واصف علی واصف

From Wikimedia Incubator
< Wn‎ | ur
Wn > ur > واصف علی واصف
واصف علی واصف
معلومات شخصیت
پیدائش 15 جنوری 1929

ضلع خوشاب

تاریخ وفات 18 جنوری 1993
قومیت پاکستانی
دیگر نام بابا جی حضور
عملی زندگی
پیشہ شاعر، استاد، مصنف
وجہ شہرت کتابیں، کالم، تصوف
ویب سائٹ
ویب سائٹ wasifaliwasif.pk

واصف علی واصف (15 جنوری 1929ء تا18 جنوری 1993ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، کالم نگاراورمسلم صوفی تھے۔

ولادت و ابتدائی زندگی[edit | edit source]

واصف علی واصف 15 جنوری 1929ء کو شاہ پورخوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد ملک محمد عارف کا تعلق وہاں کے قدیم اور معزز اعوان قبیلے کی ایک ممتاز شاخکنڈان سے تھا۔ مستند تاریخ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اعوان قوم کا سلسلہ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کی۔ جون 1939ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ اپنے نانا کے پاس جھنگ چلے آئے۔ وہ ایک ممتاز ماہرِتعلیم تھے اور جوانی میں قائدِ اعظم کے زیرِ نگرانیامرتسر میں مسلم لیگ کے لیے کام کر چکے تھے۔ آپ کے والد نے فیصلہ کیا کہ بقیہ تعلیم آپ کو جھنگ میں دلوائی جائے۔

تعلیم[edit | edit source]

جھنگ میں دورانِ تعلیم آپ کے جوہر خوب کھلے اور ایک شاندار تعلیمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ میٹرک1944ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول جھنگ سے کیا۔ اس وقت بورڈ کی بجائے امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ آپ نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ اس کے بعدایف اے گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ سے پاس کیا‘ پنجاب یونیورسٹی کے اس امتحان میں بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ آپ نے بی۔ اے گورنمنٹ کالج جھنگ سے پاس کیااور اِس مرتبہ بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے انگریزی ادب میں داخلہ لیا۔ اس دوران میں آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔

اعلیٰ تعلیم وکھیل[edit | edit source]

وہ اسکول اور کالج میں ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ سنہ 1948ء میں آپ کو ہاکی میں حسنِ کارکردگی پر ”کالج کلر“ دیا گیا۔ اس کے علاوہ کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اسی کالج کی انہی گوناں گوں سرگرمیوں کی وجہ سے 1949ء میں آپ کو ”ایوارڈ آف آنر“ دیا گیا۔ 27 ستمبر 1954ءمیں آپ کوویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا جس میں آپ کی ٹریننگ اور خدمات کو سراہا گیا۔

3 جون 1954ءکے پنجاب گزٹ کے مطابق آپ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر طبیعت کی انفرادیت اور درویشی کے میلان کی وجہ سے سرکاری نوکری کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے ریگل چوک لاہور میں واقع ایک پنجابی کالج میں پرائیویٹ کلاسوں کو پڑھانا شروع کیا۔ بعد ازاں پرانی انار کلی کے پاس نابھہ روڈ پر ”لاہور انگلش کالج“ کے نام سے اپنا تدریسی ادارہ قائم کیا۔

سلسلہ بیعت[edit | edit source]

واصف صاحب انڈیا بریلی میں شاہ نیاز احمد (چشتی قادری) کے آستانہ عالیہ سے بیعت تھے۔ 1969ءمیں زائرین کا ایک وفد امیر خسرو کے عرس پر دہلی پہنچا اس دوران میں بریلی میں خانقاہ نیازیہ پہنچے اور آپ کے سجادہ نشین محمد حسن میاں سرکارکے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔

تدریس[edit | edit source]

یہ 1962ءکی بات ہے۔ کالج میں باقاعدگی سے لنگر چلتا تھا اور خاص بات یہ تھی کہ طالب علموں کے علاوہ ہر آنے والے کو چائے پیش کی جاتی اور آپ اکثران کے ساتھ چائے نوشی میں شریک ہو جایا کرتے۔ کالج میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی آمد و رفت رہتی۔ ان میں ادیب‘ شعرا‘ بیوروکریٹ ‘ وکیل ‘ ملنگ ‘ فقراء‘ درویش اور طالب علم اپنے اپنے ذوق اور طلب کے مطابق فیض یاب ہوا کرتے تھے۔

ابتدا فیض[edit | edit source]

مختلف اخباروں اور جرائد میں آپ کا کلام چھپا کرتا تھا۔ چند اصحاب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور عارف نوشاہی سے کتابت کرائی گئی تو آپ کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ یہ 1978ءکی بات ہے۔ مجموعہ کلام کا نام ”شب چراغ“ رکھا گیا۔ اس میں آپ کے لاہور انگلش کالج کے زمانے کی ایک نہایت پر شکوہ اور جلال و جمال سے مرقّع فوٹوگراف بھی تھی۔ اس کی تقریبِ رونمائی میں آپکے بہت سے عقیدت مند اور اہلِ علم حضرات شامل ہوئے۔ اس کے بعد رشد و ارشاد کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔ یہ دور انتہائی مصروفیت اور محنت کا دور تھا۔ جب لوگوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی تو گفتگو نے ”محفل“کا روپ اختیار کر لیا۔ مختلف مقامات پر محفل جمنے لگی۔ شروع شروع میں محفل کی باقاعدہ شکل لاہور کے مشہور اور مصروف مقام ”لکشمی چوک“ میں بننی شروع ہوئی۔ اس کے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محترم نیازی مرحوم کے ہاں محفلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں پر ایک ہزار راتیں آپ نے خطاب کیا۔ مختلف موضوعات پرلوگ سوالات کیا کرتے اور آپ ان کے جواب دیا کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپ کی قیام گاہ 22 فردوس کالونی گلشن راوی پر شروع ہوا۔

کالم نویسی[edit | edit source]

1984 میں آپ کو ایم اے او کالج لاہورکی ”مجلسِ اقبال“ کے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیااور ایک محفل وہاں بھی جمی۔ چیدہ چیدہ اہلِ علم اور اہلِ قلم اصحاب نے آپ سے مختلف سوالات کیے۔ اس کی روداد روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئی تو قارئین کی اکثریت نے اصرار کیا کہ واصف صاحب کی تحریر کا کوئی باقاعدہ سلسلہ ہونا چاہیے۔ تب آپ نے نوائے وقت کے لیے کالم لکھنا شروع کیا۔ پہلا کالم ”محبت“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ندرتِ کلام اور تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے دھڑا دھڑ آپ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے دینی‘ دنیاوی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے آپ کو مستجاب پایا۔

وفات[edit | edit source]

واصف علی واصف کا ایک فرمان ہے کہ ”عظیم لوگ بھی مرتے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے“ یوں تو آپ نے 18 جنوری 1993ءبمطابق 24 رجب 1415ھ کی سہ پہر کو اس دارِ فانی سے آنکھیں موندھ لی تھیں مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے علم و عرفان کا نور ہر سُو پھیلتا ہی جا رہا ہے اور پھیلتا ہی جائے گایہاں تک کہ آپ کا اصل مقصدِ تخلیق پورا ہو جائے گا یعنی ”استحکام پاکستان اوراسلام کی نشاة ثانیہ“

تصانیف[edit | edit source]

  • قطرہ قطرہ قلزم
  • حرف حرف حقیقت
  • دل دریا سمندر
  • بات سے بات – 1993ء
  • گمنام ادیب – 1980ء
  • مکالمہ – 1983ء
  • ذکر حبیب
  • دریچے
  • گفتگو 1 تا 33 – 1992ء

انگریزی تصانیف[edit | edit source]

  • The beaming soul-1988 A

شاعری[edit | edit source]

  • شب چراغ – 1978ء
  • بھرے بھڑولے، پنجابی شاعری

اقتباسات[edit | edit source]

کرن کرن سورج سے :

محب اور محبوب

محب اور محبوب کی الگ الگ تعریف مشکل ہے۔ محبت کے رشتے سے دونوں ہیں۔ کسی کی کسی پر فوقیت کا بیان نہیں ہو سکتا۔ مقام محبوب مقام محب سے کم تر یا بر تر نہیں کہا جاسکتا۔ ایک کی ہستی دوسرے کے دم سے ہے۔ دنیاوی رشتوں میں محب اور محبوب کا تقابل ناممکن ہے۔ حقیقت کی دنیا میں تو اور بھی ناممکن۔ اللہ کو اپنے محبوب سے کتنی محبت ہے کہ اسے باعث تخلیق کائنات فرما دیا۔ اللہ اپنے فرشتوں کے ہمراہ اپنے محبوب پر دورد بھیجتا ہے، اس کے ذکر کو بلند کرتا ہے، اس کی شان بیان کرتا ہے اور محبوب اپنے اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کی تسبیح بیان فرماتے ہیں، اس کے لیے زندگی اور زندگی کے مشاغل وقف فرماتے ہیں۔

کامیابی اور ناکامی کامیابی اور ناکامی اتنی اہم نہیں جتنا کہ انتخاب مقصد۔ نیک مقصد کے سفر میں ناکام ہونے والا برے سفر میں کامیاب ہونے والے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن اس کی زندگی ناکام ہو۔

کلام، تاثیر اور صداقت

جھوٹا آدمی کلام الہی بھی بیان کرے تو اثر نہ ہوگا۔ صداقت بیان کرنے کے لیے صادق کی زبان چاہیے۔ بلکہ صادق کی زبان ہی صداقت ہے۔ جتنا بڑا صادق، اتنی بڑی صداقت۔ انسان کا اصل جوہر صداقت ہے، صداقت مصلحت اندیش نہیں ہوسکتی۔ جہاں اظہار صداقت کا وقت ہو وہاں خاموش رہنا صداقت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس انسان کو صادق نہیں کہتے جو اظہار صداقت میں ابہام کا سہارا لیتا ہو۔

حکومت

حکومت نااہل ہوسکتی ہے، غیر مخلص نہیں۔ ملک سے مخلص ہونا حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ملک سلامت رہے گا تو حکومت قائم رہ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت ہمیشہ مخلص ہی ہوتی ہے۔

حزب اختلاف حکومت کو غیر مخلص کہتا ہے اور حکومت اپنے مخالفوں کو وطن دشمن کہتی ہے، جو انسان دس سال سے زیادہ عرصے سے ملک میں رہ رہا ہو وہ ملک دشمن نہیں ہو سکتا۔ جس کے ماں باپ کی قبر اس ملک میں ہے وہ غدار نہیں