Jump to content

Wn/ur/غازی ممتاز حسین قادری شہید

From Wikimedia Incubator
< Wn | ur
Wn > ur > غازی ممتاز حسین قادری شہید
ممتاز قادری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1985  

راولپنڈی  

وفات 29 فروری 2016 (30–31 سال)  

سینٹرل جیل راولپنڈی  

وجہ وفات پھانسی  
طرز وفات سزائے موت  
مقام نظر بندی سینٹرل جیل راولپنڈی (2011–2016)  
شہریت پاکستان  
عملی زندگی
پیشہ پولیس افسر  
پیشہ ورانہ زبان اردو  
ملازمت پنجاب پولیس  
الزام و سزا
الزام قتل  
جرم قتل ( فی: 4 جنوری 2011)( سزا: پھانسی)  

ملک ممتاز حسین قادری اعوان (ولادت:1985ء -وفات: 2016ء-راولپنڈی) پاکستانکی پنجاب پولیس کے کمانڈو یونٹ ایلیٹ فورس کے ایک سپاہی تھے۔ جو گورنر پنجابسلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھے۔ ممتاز قادری نے گورنر کی جانب سے قانون توہین رسالت پر تنقید کرنے پر اس کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 2011ء میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔ سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نےفروری 2015ء میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہمسزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اسی فیصلے کو دسمبر 2015ء میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو سزائے موت دے دی گئی۔

پیدائش و بشارت

[edit | edit source]

ملک محمد ممتاز حسین قادری کی پیدائش یکم جنوری 1985ء کو راولپنڈی پاکستان میں ہوئی۔

  • بشارت:

آپ کی پیدائش سے دو سال قبل ایک رات آپ کے والد محترم ملک بشیر اعوان نیند سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ گھر کے ایک کونہ میں ایک نورانی چہرہ والے باریش بزرگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ملک صاحب پریشان ہوئے کہ دروازہ بند ہونے کے باوجود یہ بزرگ کمرے میں کیسے تشریف فرما ہوئے ہیں؟ اسی دوران وہ بزرگ اٹھے اور کمرہ سے باہر جاتے ہوئے کہا

بشیر صاحب جہاں ہم نے نماز پڑھی ہے وہاں اللہ کا ایک ولی اور عاشق رسول ﷺ  پیدا ہوگا جو آپ کا نام پوری دنیا میں روشن کرے گا۔ اس کی ایک للکار سے چار سو کفر کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہو جائے گا اور پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو دوام حاصل ہوگا۔

چنانچہ دو سال بعد اسی کونا میں ملک ممتاز حسین قادری کی ولادت ہوئی۔

  • برکت:

ملک بشیر صاحب کا کہنا ہے کہ میں دیہاڑی دار مزدور تھا اور رزق حلال کما کر گھر کے دس افراد کا خرچ مشکل سے چلاتا تھا ، بنیادی ضروریات بھی پوری طرح میسر نہیں تھیں۔ ملک ممتاز حیسن کی ولادت کے بعد میرے بچوں کو ملازمتیں ملیں اور دن بدن گھر کی رونقوں اور خوشیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ میرے علاوہ شاید کوئی نہیں جانتا تھا یہ ساری بہاریں میرے سانولے چاند ممتاز کی برکت سے تھی۔

ابتدائی حالات

[edit | edit source]

ممتاز قادری کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی خاموش مزاج تھے اور یہ عادت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔ ابتدائی کلاسوں میں خود ہی سکول کے لیے تیار ہو جاتے اور بغیر کسی کی مدد کے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیتے۔ پاک صاف رہنے ، محافل میں شریک ہونے اور نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔

چھٹی کلاس میں تھے کہ سر پر عمامہ سجانا شروع کر دیا اور دہم کلاس میں پہنچے تو بانی دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری کے مرید ہو گئے۔ مرید ہونے کے بعد دینی رجحنات میں مزید اضافہ ہو گیا اور پڑھائی کی طرف توجہ کم ہو گئی۔ ممتاز قادری نے مدرستہ المدینہ کراچی میں داخلہ کی خواہش ظاہر کی جو گھریلو حالات کی وجہ سے پوری نہیں ہو سکی۔

دین سے محبت

[edit | edit source]

ملک ممتاز قادری نماز ، روزہ اور دیگر احکام شریعت کے پابند تھے۔ سنت رسول ﷺ پر عمل کی کوشش کرتے تھے۔ علما کی محبت اور ان کی خدمت کو باعث فخر سمجھتے تھے۔

ممتاز قادری بہترین نعت خواں تھے۔ انہیں بچپن سے ہی نعت رسول مقبول پڑھنے کا شوق تھا۔ آپ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا:

دس سال کی عمر میں جو نعت رسول مقبول ﷺ ایک بار سن لیتا وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی ، جب کہ اسکول کا انگریزی سبق مجھے دس دس دن تک یاد نہیں ہوتا تھا۔ سبق یاد نہ ہونے کی صورت میں اسکول میں اساتذہ کو انگریزی نظم کے بجائے نعت رسول مقبول سنا دیتا تو ہر سزا سے بچ جاتا۔

اہل محلہ شاہد ہیں کہ ڈیوٹی سے چھٹی کے دنوں میں محلہ کے بچوں کو نعت شریف اور سنتیں سکھاتے تھے اسی لیے محلہ بھر کے بچے ان سے بہت محبت کرتے تھے۔

راقم نے ان کے دست مبارک سے لکھی ہوئی تحریر میں پڑھا

ہر وقت باوضو رہیے ، ہمیشہ سچ بولیے ، مدنی چینل دیکھتے رہیے

آپ کا معمول تھا کہ روزانہ ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اور ڈیوٹی سے واپسی پر اپنے نومولود شہزادےمحمد علی رضا کو نعت شریف اور اذان سناتے۔

گرفتاری کے فوراً بعد کوہسار تھانے میں آپ وجد کے عالم میں نعت رسول مقبول یا رسول اللہ تیرے چاہنے والوں کی خیر پڑھ کر بارگاہ رسالت میں حاضری لگوا رہے تھے اور شہادت سے قبل بھی کئی گھنٹے تک نعت خوانی میں مشغول رہے۔

آپ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے دھوم دھام سے شادی کرنے کے لیے کافی رقم جمع کر رکھی تھی مگر انہوں نے کہا

شادی شریعت کے مطابق سادگی سے ہو گی ، ڈسکو وغیرہ کے بجائے محفل کا اہتمام ہو گا اور بارات و ولیمہ میں چند افراد کو دعوت دی جائے گی

جنازہ کے موقع پر شرکاء جنازہ کو ان کے ساتھی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ وہ (ممتاز قادری) میز پر کھانا کھانے کی بجائے زمین پر بیٹھ کر کھاتے اور کہتے

زمین پر بیٹھ کر کھانا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے

پولیس میں شمولیت

[edit | edit source]

ملک محمد ممتاز حسین قادری 2003ء میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے اور 2008ء میں ایلیٹ فورس میں شمولیت اختیار کی۔

محکمہ کے ریکارڈ کے مطابق نہ ہی آپ نے کبھی کسی سے بد اخلاقی کی ، نہ کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث پائے گئے اور نہ ہی آپ کا کبھی کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رہا۔

محکمہ کے تمام افسران و ملازمین آپ سے محبت کرتے تھے کیونکہ آپ ملنسار تھے ، وقت کی پابندی اور فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرتے تھے حتی کہ نماز کی ادائیگی میں جو وقت صرف ہوتا وہ بعد میں اضافی ڈیوٹی کر کے پورا کرتے ، بیشتر وردی میں رہتے۔

کمانڈو کورس کے درمیان آپ کی نشانہ بازی پر تمام ساتھی اور تربیت دینے والے حیران تھے کہ آپ چلتے اور بھاگتے ہوئے حتی کہ آنکھیں بند کر کے بھی درست نشانہ بنا سکتے تھے۔ اللہ تعالی کی طرف سے اس خاص عطا کا نتیجہ ہی تھا کہ گستاخ رسول سلمان تاثیر کو نشانہ بناتے ہوئے آپ نے 27 گولیاں فائر کیں اور ایک خطا نہیں ہوئی۔

سلمان تاثیر کے قتل کا پس منظر

[edit | edit source]

14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ کے گاؤں اٹانوالی میں ایک مسیحی عورت آسیہ نے رسول اللہ کی شان اقدس میں گستاخی کی۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اسے 8 نومبر 2010ء کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانہ کا حکم سنایا۔  

20 نومبر 2010ء کو اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پوپ اور دیگر مسیحی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخوپورہ جیل میں آسیہ مسیح سے ملاقات کی اور اس ملعونہ کو یقین دلایا کہ میری تمام تر ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں اور میں تمہیں صدر پاکستان سے معافی دلواؤں گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا

آسیہ کو (گستاخی رسول کی وجہ سے) جو سزا سنائی گئی وہ انسانیت کے خلاف اور بڑی ظالمانہ سزا تھی

مزید برآں سلمان تاثیر نے قرآن و سنت کی روشنی میں بننے والے قانون تحفظ ناموس رسالت (295-C) کو کالا قانون کہہ ڈالا اور ٹوئٹر (Twitter) پر اپنے آخری پیغام میں لکھا

مجھ پر توہین رسالت قانون کے سلسلے میں دائیں بازو کی قوتوں کے سامنے جھکنے کے لیے شدید دباؤ ہے ، تا ہم اگر میں اس موقف پر آخری شخص بھی رہ گیا تب بھی ایسا نہیں کروں گا ، میں ایسے لوگوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں

صرف یہی نہیں سلمان تاثیر کو ختم نبوت کے منکر قادیانیوں سے اس قدر ہمدردی تھی کہ اس کی بیٹی شہربانو نے بیان دیا

میرے والد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سخت مخالف تھے

سلمان تاثیر کے والد محترم ڈاکٹر محمد دین تاثیر ناموس رسالت پر فدا تھے۔ شہید ناموس رسالت غازئ علم دین شہید کے جسد مبارک کو لاہور منتقل کر نے کے لیے انہوں نے ہی ازراہ عقیدت تابوت پیش کیا تھا۔ نہ جانے سلمان تاثیر کو اپنے والد کے افکار سے اس قدر کیوں بغاوت تھی۔

سلمان تاثیر کا جرم

[edit | edit source]

رسول اللہ کی شان اقدس میں معاذاللہ گستاخیاں کرنے والی عورت کو عدالتی تحقیقات میں گستاخ ثابت ہونے کے بعد بے قصور اور مظلومہ کہہ کر قانون ہاتھ میں لینا اور اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف وزری کرنا ، ملعونہ گستاخ کی وکالت کر کے خود توہین رسالت کا ارتکاب کرنا ، قرآن و سنت کی روشنی میں بننے والے قانون تحفظ ناموس رسالت (295-C) کو کالا قانون قرار دینا ، علما کرام کو جوتی کی نوک پر رکھنا اور ختم نبوت کے منکر مرزائیوں کو مسلمان سمجھنا وہ امور ہیں جو اس کے قتل کا سبب بنے۔

حکومت کی غفلت

[edit | edit source]

مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو وہ اپنے رسول کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔ سلمان تاثیر کی ہرزہ سرائئوں سے ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ احتجاجی مظاہروں ، ملک گیر ہڑتال اور تحریر و بیان کے ذریعے ایمانی جذبات کا اظہار کیا گیا۔ 500 علما کرام کی طرف سے فتاوی جاری کیے گئے۔ مگر افسوس نہ تو صدر مملکت نے گورنر کو لگام دی ، نہ ہی چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لیا اور نہ ہی کسی دوسرے ذمہ دار کے کان پر جوں رینگی حتی کہ جب گورنر کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی آر (FIR) کاٹنے کی درخواست دی گئی تو جواب ملا

گورنر کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اسے قانونی طور پر استثنا حاصل ہے

ممتاز قادری کا اضطراب

[edit | edit source]

آپ کے بھائی ملک دلپذیر اعوان کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کی ہرزہ سرائیوں اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران گرفتاریوں پر ممتاز قادری پریشان رہنے لگے ، کھانا پینا بھی مشکل ہو گیا ، بیٹے محمد علی رضا کے بیمار ہونے پر مجھے کہا کہ مجھ میں ہمت نہیں ، آپ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ گھریلو معمالات میں بے توجہی کے باعث گھر والے پریشان اور کچھ ناراض بھی ہوئے۔ میرے استفسار پر کہنے لگے

بہت بڑے عہدے پر فائز ایک شخص توہین رسالت کر رہا ہے ، علما فتوے دے رہے ہیں ، احتجاج ہو رہا ہے ، میں سخت تکلیف میں ہوں ، مجھ سے کھایا پیا نہیں جا رہا اور میرا دوستوں میں دل نہیں لگتا

ممتاز قادری نے مختلف وکلا اور پولیس آفیسرز سے سلمان تاثیر کے خلاف ایف آئی آر درج نہ ہونے کی وجہ پوچھی ، جب انہیں بتایا گیا کہ گورنر کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تو کہنے لگے

یہ کیسا قانون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود کو فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے بارے میں بھی جواب دہ سمجھتے ہیں اور یہاں حکمران گستاخی بھی کریں تو ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا

ناموس رسالت کانفرنس

[edit | edit source]

ملک دلپذیر صاحب کا بیان ہے کہ 31 دسمبر 2010ء کو ہمارے گھر سے ملحقہ پلاٹ میں شباب اسلامی کے زیر اہتمام ناموس رسالت کانفرنس تھی۔ اس موقع پر وہ (ممتاز قادری) مجھے بہت خوش نظر آئے ، انہوں نے بال بھی کٹوائے ، خوبصورت لباس پہنا ، سر پر عمامہ سجایا۔

کانفرنس میں سب سے پہلے انہیں ہی نعت شریف پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔ چہرے کی خوبصورتی ، چال ڈھال دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ آج یہ حسن کہاں سے اور کیوں آیا؟  

مجھے کیا معلوم تھا کہ ان کی تقدیر میں کیا کچھ لکھا جا چکا ہے۔

سلمان تاثیر کا انجام

[edit | edit source]

4 جنوری 2011ء وہ تاریخی دن ہے جب شہید ناموس رسالت غازی ممتاز حسین قادری نے اپنے رسول کریم کی گستاخیوں کا بدلہ لیتے ہوئے اسلام آباد کوہسار مارکیٹ کے باہر سلمان تاثیر کو 27 گولیاں مار کر اپنے سینے کی آگ گستاخ رسول کے خون سے بجھائی۔ گستاخ رسول زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔

اس سے عشاق رسول مسرور ہوئے ، کفر کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا اور (295-C) میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جمع کروائی گئی قرارداد سمیت ناموس رسالت کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں تھم گئیں۔  

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سلمان تاثیر کے حامیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کوئی عالم دین میسر نہیں آیا۔

ممتاز قادری کا جذبہ

[edit | edit source]

ملک دلپذیر اعوان صاحب کا کہنا ہے کہ 4 جنوری 2011ء کو تین دن سے کھانا پیںا متروک ہونے کے باوجود غازی صاحب لاغر ہونے کی بجائے انتہائی چاق و چوبند نظر آئے۔ لگتا تھا وہ خود حرکت نہیں کر رہے بلکہ انہیں کوئی اور چلا رہا ہے۔ میں نے یہ پھرتی دیکھ کر پوچھا کہ کیا کوئی وی آئی پی VIP کال آ گئی ہے؟ تو مجھے کہنے لگے کہ دلپذیر بھائی!  VIP نہیں VVIP کال آئی ہے ، میں نے جلدی جانا ہے۔

بعد میں بھابی سے معلوم ہوا کہ آج وہ اتنی جلدی ڈیوٹی پر چلے گئے کہ ناشتا بھی نہیں کیا اور بیٹے کو نعت شریف بھی نہیں سنائی۔

سہ پہر 4:30 بجے شور مچ گیا اور ہمارے گھر مبارکبادیں دینے کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہو گیا۔ جب ٹیلی وژن آن کیا تو ممتاز بھائی کی ہنستی مسکراتی صورت نظر آئی ، وہ کہہ رہے تھے

گستاخ رسول کی سزا موت ہے

عدالتی فیصلہ

[edit | edit source]

سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعد ممتاز قادری نے فوراً گرفتاری پیش کر دی۔ میڈیا اور 60 سے زیادہ تفتیشی اداروں کے سامنے ایک ہی بیان دیا کہ میں نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا اور میں اپنے فعل پر مطمعن ہوں۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں لگائی گئی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ذریعے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالتی کارروائی کی رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق آپ کا بیان درج ذیل ہے :

میں سلمان تاثیر کی جانب بڑھا۔ تب مجھے اس سے بات کرنے کا موقع ملا "محترم آپ نے بحثیت گورنر قانون تحفظ ناموس رسالت کو "کالا قانون" کہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کے لیے مناسب نہیں (آپ کو زیب نہیں دیتا)"۔ اس پر وہ اچانک چلایا اور کہنے لگا "نہ صرف وہ کالا قانون ہے بلکہ وہ میری نجاست ہے"۔ بحثیت مسلمان میں دباؤ (جذبات) میں خود کو کنڑول نہ رکھ سکا اور فوراً مشتعل ہو گیا۔ میں نے ٹرگر (بندوق کا گھوڑا) دبایا اور وہ میرے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور میں نے یہ تحفظ ناموس رسول ﷺ کے لیے کیا۔

یکم اکتوبر 2011ء کو دہشت گردی کی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے آپ کو دو مرتبہ سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اور اپنے فیصلے میں کہا

آپ نے جو کام کیا وہ اسلام کی رو سے ٹھیک ہے مگر ملکی قانون کے تحت آپ کو سزا سنائی جا رہی ہے۔

(یعنی اگر اسلامی قانون ہوتا تو عدالت آپ کو باعزت طور پر بری کر دیتی مگر یہاں انگریز کا جاری کردہ قانون ہے اس لیے سزا سنائی جا رہی ہے)

یہ فیصلہ سنتے ہی ممتاز قادری کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور انہوں نے وہاں موجود اپنے والد محترم کو مبارک باد دی اور حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی۔

اس فیصلہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنچ کیا گیا۔ 9 مارچ 2015ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا ، البتہ ہائی کورٹ نے فرد واحد کے قتل کی بنیاد پر ایک بار سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔

اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جہاں جسٹس (ر) خوجا محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) اور جسٹس (ر) نذیر اختر نے قرآن و سنت کی روشنی میں ممتاز قادری کے حق میں زبردست دلائل پیش کیے مگر کسی کے دباؤ پر آصف کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے دلائل رد کیے بغیر 7 اکتوبر 2015ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت ختم کرنے کی بجائے دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال کر دیا۔  

اس پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کی گئی مگر وکلا کے دلائل سنے بغیر ہی آصف کھوسہ نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ سلمان تاثیر نے کوئی گستاخ کی ہی نہیں لہذا درخواست ناقابل سماعت ہے۔  

اپیل مسترد ہونے کے بعد صدر کو مراسلہ روانہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ قرآن و سنت کے منافی ہے لہذا صدر اپنے خصوصی اختیارات کے تحت اسے کالعدم قرار دیں۔ دوسری مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں نے صدر سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی ، شیخ الحدیثعلامہ حافظ خادم حسین رضوی اور دیگر اکابرین اہل سنت و جماعت نے تحریک رہائی ممتاز حسین قادری کے تحت عدالتی فیصلہ کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی۔ مگر افسوس بے حمیت وزیر اعظمکی ایڈوائس پر ضمیر فروش صدر نے عوام کے ایمانی جذبات کا قتل عام کرتے ہوئے مراسلہ کو مسترد کر دیا۔

عدالتی فیصلہ کی حثیت

[edit | edit source]

ممتاز قادری کے بارے میں عدالتی فیصلہ قرآن و سنت ، تاریخ اسلام اور نظریہ پاکستان کے متصادم تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ میں متعدد صحابہ کرام نے گستاخوں کو واصل جہنم کیا جس پر رسول اللہ نے ان کی تحسین فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔  

خلفاء راشدین سے آج تک اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کسی اسلامی حکومت کی طرف سے گستاخ رسول کو قتل کرنے پر سزا سنائے جانے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔  

خود دہشت گردی عدالت کے جج نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے جو کام کیا وہ اسلام کی رو سے ٹھیک ہے۔ جب آئین کے مطابق قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لا ہیں تو یہ فیصلہ آئین پاکستان کے خلاف ہوا۔  

آج غازی علم دین شہید کے دفاع میں پیش پیش رہنے والے علامہ محمد اقبال ، قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر کارکنان تحریک پاکستان کی روحیں ہم سے پوچھ رہی ہیں

  • کیا ہم نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ناموس رسالت کا تحفظ کرنے والے کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کر دیا جائے؟

ممتاز قادری کی مقبولیت

[edit | edit source]

ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا  

جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے اللہ تعالی انہیں اپنا محبوب بنائے گا اور اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا۔

اس وعدہ الہیہ کے مطابق 4 جنوری 2011ء کے بعد ممتاز قادری کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہر طبقہ کے عشاق رسول آپ سے محبت کرتے ہیں۔

ملک دلپذیر اعوان صحب کا کہنا ہے کہ 4 جنوری کی شام 6 بجے جب پولیس کے افسران ہمارے گھر آئے تو اجازت لے کر داخل ہوئے ، (حالانکہ مجرموں کے دروازے توڑ کر آتے ہیں) جو چیز جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دی ، پھر گھر کے افراد کو اپنے ہمراہ لے گئے اور اعزاز کے ساتھ سوالات پوچھتے رہے۔

جب ممتاز بھائی سے پہلی ملاقات ہوئی تو افسران والد صاحب کے قدموں میں گر گئے اور کہنے لگے کہ ہمیں معاف کر دیں ہم مجبور ہیں۔

ہمیں پولیس افسران کے اس رویہ پر حیرت ہوئی تو ممتاز قادری صاحب نے مجھے قریب بلا کر میرے کان میں کہا

یہ تو کچھ بھی نہیں ، غلامان رسول ﷺ کے قدموں میں تو بادشاہوں کے تاج بھی جھک جاتے ہیں

عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر وکلا نے ان کا زبردست استقبال کیا اور کئی من پھول نچھاور کیے جس سے بوکھلا کر حکومت نے فیصلہ کیا کہ ممتاز حسین قادری کیس کا ٹرائل خصوصی عدالت کے ذریعے جیل میں ہی ہو گا۔ لاکھوں روپے فیس لینے والے سینکڑوں وکلا نے ان کا کیس مفت لڑنے کی پیشکش کی۔

جب آپ جیل پہنچے تو ہزاروں قدیوں نے غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے کے نعروں سے استقبال کیا اور گلے میں ہار بھی ڈالے۔

آپ کی شہادت پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی افسردگی اور ملک و بیرون ملک سے جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت آپ کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

شہادت

[edit | edit source]

عوامی رد عمل کے خوف سے ممتاز قادری کو شہید کرنے کا منصوبہ مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا۔ رات کو آپ معمول کے مطابق آرام کر رہے تھے کہ نیند سے بیدار کر کے بتایا گیا کہ صبح آپ کو پھانسی دی جائے گی۔ آپ نے سفید لباس زیب تن کیا اور واسکٹ پہنی جس پر پاکستانی پرچم کا بیج آویزاں کیا۔

ادھر پولیس کی گاڑیاں آپ کے گھر کے باہر پہنچی اور اہل خانہ سے کہا کہ غازی صاحب کی طبیعت خراب ہے ، خیریت دریافت کرنے کے لیے آئیں۔

اہل خانہ کی آمد پر آپ نے انہیں نہایت اطمینان کے ساتھ جھوم جھوم کر دیر تک نعتیں سنائی اور بتایا کہ مجھے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین ، غوث اعظم اور داتا گنج بخشعلی ہجویری رضی اللہ عنھم کی زیارت ہوئی ، انہوں نے میری قربانی قبول ہونے کی بشارت دی ہے۔

آپ نے اہل خانہ سے یہ بھی کہا :

تمہاری خواہش تھی کہ میں رہا ہو جاؤں اور میری خواہش تھی کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہو جاؤں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے میری التجا کو قبول فرمایا ہے۔

آپ کو شہید کرنے کے لیے 4 بجے کا وقت طے تھا۔ اہل خانہ سے ملاقات کے بعد آپ نے آب زمزم اور عجوہ کھجوروں سے سحری کر کے روزہ رکھا ، نماز تہجد ادا کی اور وقت مقرر سے قبل ہی پھانسی گھاٹ کی طرف جانے لگے۔ آپ سے کہا گیا ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ فرمانے لگے

سامنے رسول اللہ ﷺ جلوہ افروز ہیں اور انتظار فرما رہے ہیں

آپ نے جیل حکام سے کہا

بوقت شہادت میں سر پر عمامہ باندھے رکھوں گا ، میرے چہرہ پر کالا کپڑا بھی نہیں ڈالا جائے گا اور میں پھندا اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈالوں گا۔

چنانچہ آپ کی خواہش پوری کی گئی۔

آپ 29 فروری 2016ء بروز سوموار صبح 4 بجے نعرہائے تکبیر و رسالت لگاتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گئے۔

جنازہ و تدفین

[edit | edit source]

شہادت کے دوسرے دن یکم مارچ 2016ء بروز منگل لیاقت باغ راولپنڈی میں لاکھوں عاشقان رسول اور مختلف مکاتب فکر کے افراد نے شیخ الحدیث سید حسین الدین شاہ صاحب کی اقتداء میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ ادا کی اور حکومت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اشکبار آنکھوں کے ساتھ پرامن طریقہ سے منتشر ہو گئے۔

بعد ازاں اسلام آباد کے نواح میں بہارہ کہو کے قریب آپ کے آبائی گاؤں اٹھال میں پچاس ہزار سے زائد افراد نے گل پاشی کرتے ہوئے آپ کو لحد میں اتارا۔

کرامات

[edit | edit source]
  1. جیل میں آپ کی برکت سے کینسر اور دیگر امراض میں مبتلا متعد لاعلاج مریض شفایاب ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری صحت یابی پر ڈاکٹر محو حیرت ہیں۔
  2. شہید ناموس رسالت ممتاز قادری نے اپنی یادداشتوں میں لکھا
پیرومرشد کی نظر کرم اور اثر انگیز دعاؤں کی بدولت جیل کی کوٹھڑی جس کا سائز 6×8 ہے اکثر ایک وسیع باغیچہ میں تبدیل ہو جاتی ہے ، چشمے بھی نظر آتے ہیں ، پہاڑ اور پرندے بھی ، سب کچھ نظر آتا ہے اور مل بھی جاتا ہے۔ جیل کی دیواروں کو اکثر ٹوٹا ہوا شگاف زدہ دیکھتا ہوں اور جیل کی سلاخیں اکثر ہوا یا پانی کی طرح راستہ دیتی رہتی ہیں۔ وہ تمام عاشقان مصطفی ﷺ ستاروں کی طرح حرف بحرف نظر آتے ہیں جو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور میری رہائی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔
  1. ممتاز قادری کو غسل دینے کی سعادت حاصل کرنے والے سید امتیاز حسین شاہ (مدرس جامعہ رضویہ ضیاءالعلوم) کا کہنا ہے کہ آپ کے جسم مبارک سے ایسی عمدہ خوشبو پھوٹ رہی تھی کہ میں نے زندگی بھر ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔
  2. عینی شاہدین (مولانا قاسم نقشبندی متعلم جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور و دیگر) کا کہنا ہے کہ دو دن گزر جانے کے باوجود آپ کا جسم مبارک مکمل طور پر تروتازہ تھا ، پھانسی کے باوجود چہرہ مبارک کی چمک مسلسل بڑھ رہی تھی اور تدفین تک آپ کے مبارک جسم سے معطر پسینہ جاری تھا۔  

پھانسی پر احتجاج

[edit | edit source]

پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا گیا۔ راولپنڈی میں مظاہرین نے شہر کو دار الحکومت اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آبادپل کو بند کر دیا اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔

لاہور میں احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل رہی۔ جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر حکومت نے فوری پابندی لگادی۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جو ملک میں ’ممتاز قادری بچاؤ مہم‘ چلا رہے تھے۔

وکلا کا رد عمل

[edit | edit source]

اسلام آباد بارایسوسی ایشن نے ممتازقادری کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہڑتال کردی ہے، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں پھانسی کو جوڈیشل قتل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے وکلا اس کے خلاف مکمل ہڑتال کریں گے اور کوئی بھی وکیل عدالتوں میں پیش نہیں ہوگا