Wn/ur/صاحبزادہ نور سلطان

From Wikimedia Incubator
< Wn‎ | ur
Wn > ur > صاحبزادہ نور سلطان

حضرت علامہ محمد نور سلطان القادری (1942ء-2006ء) ایک مسلمان عالم دین اور صوفی بزرگ تھے۔ آپ حضرت سلطان باہو کی اولاد میں سے تھے

پیدائش اور بچپن[edit | edit source]

وہ 28 فروری 1942ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پسماندہ اور دور دراز گاؤں جمعہ شریفمیں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حضرت فقیر سلطان غلام باہو (1913ء-2001ء) بیسویں صدی کے ایک ممتاز صوفی بزرگ تھے۔ نور سلطان القادری ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا، لہٰذا ان کے والد نے انہیں خصوصی محبت اور شفقت سے پالا۔ جس ماحول میں ان کی پرورش کی گئی وہاں شریعت اور طریقت کی محض تبلیغ نہیں، بلکہ ان پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔

تعلیم[edit | edit source]

نور سلطان القادری نے چھِجڑی (جمعہ شریف کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹا سا دیہات)، کلاچی اورپہاڑ پور سے سن 1958ء تک ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1958ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے علامہ سید احمد سعید کاظمی کے قائم کردہ جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم میں داخلہ کیا۔ ان کے درس نظامی کی تعلیمات کے اساتذہ کے نام مندرجہ ذیل ہیں: -

  • سید احمد سعید کاظمی (1913ء-1986ء)
  • مفتی امید علی خان (1883ء-1964ء)
  • سید مسعود علی قادری (1909ء-1973ء)
  • مفتی عبد الکریم
  • محمد جعفر
  • عبد الحکیم

ایک طالب علم ہونے کے باوجود ان کے لکھے مضامین معروف جریدے السعید میں شائع ہوتے رہے اور وہ فلسفیانہ اور فقہی مباحث میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے جنوری 1963ء میں علامہ سید احمد سعید کاظمی سے دورہ حدیث مکمل کیا۔ ان سالوں کے دوران انہوں نے جامعہ مظہر العلوم شجاع آباد میں بھی کچھ ہفتے گزارے۔ ان کے جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم، ملتان ہم جماعتوں میں سے فضلِ سبحان (مہتمم، جامعہ قادریہ، مردان)، پیر محمد چشتی (مہتمم جامعہ غوثیہ معینہ، پشاور)، پیر مختار جان سرہندی (سجادہ نشین دربار سرہندی بادشاہ، ماتلی، بدین، سندھ)، مقصود احمد چشتی (سابق خطیب، داتا دربار، لاہور)، پیر بخش تونسوی (جامعہ قادریہ، اٹک)، ظہور سلطان قادری (دربار حضرت سلطان باھو، جھنگ)، تاج الدین حسنی (بارکھان، بلوچستان)، برکت علی رضوی نقشبندی (مہتمم جامعہ رضویہ انوارالاولیاء، ماموں کانجن، فیصل آباد)، مفتی ہدایت اللہ (اب جامعہ ہدایت القرآن، ملتان)، مشتاق احمدگولڑوی (اب دربار گولڑہ شریف)، نذیر احمد مہروی زیادہ مشہور ہیں۔ انہوں نے علمِ وراثت کی تعلیم اس علم کے ماہر مفتی سراج احمد خان پوری (1886ء-1972ء) سے حاصل کی جو 'سراج الفقہا' کے لقب سے ملقب تھے۔

منطق اور فلسفہ[edit | edit source]

جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم ملتان سے درس نظامی اور دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد، علوم معقول (منطق اور فلسفہ) کے حصول کے لیے وہ ضلع میانوالی کے دور افتادہ گاؤں موسی والی پہنچے اور مارچ، 1963 میں تھل، ریگستان میں میاں سلطان اعظم (متوفیٰ: 1966ء)، جو ایک صوفی بزرگ تھے،کی خدمت میں حاضر ہو کر ان علوم کو حاصل کیا۔ موسی والی میں اپنے 5 ماہ کے قیام کے دوران، انہوں نے شرح تہذیب اور سلم العلوم کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے استادِ محترم کے لیکچرز اور ملفوظات کو تفصیل سے لکھ لیا۔ پھر وہ جولائی 1963ء میں جامعہ مظہریہ امدادیہبندیال شریف چلے گئے۔ ان دنوں علمی حلقوں میں عطاء محمد بندیالوی (1916ء تا 1999ء) کو استاد الاساتذہ مانا جاتا تھا۔ معقولات پر انہیں بے مثال مہارت حاصل تھی۔ وہاں انہوں نے عطاء محمد بندیالوی سے علم حاصل کیا۔ اس دوران انہوں نے میر قطبی، ملا حسن، ملا جلال، رسالہ قطبیہ میر زاہد غلام یحیی، شرح قاضی اور دیگر کتابیں پڑھیں۔

اعلیٰ تعلیم[edit | edit source]

نومبر 1964ء میں علامہ نور سلطان القادری نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں داخلہ لیا اور جون 1966ء میں تخصص فی الفقہ امتیاز کے ساتھ مکمل کیا۔ اس وقت کے ہم جماعتوں میں فضل سبحان (مردان)، پیر محمد چشتی (پشاور)، حافظ اللہ بخش اویسی (کراچی)، حافظ محمد گل سعیدی چشتی (میانوالی)، عبد الحق ہاشمی (برطانیہ) اور پروفیسر نصیر الدین شبلی (ملتان) شامل ہیں۔

عملی زندگی[edit | edit source]

برصغیر میں اپنے دور کے اعلیٰ ترین اساتذہ علوم و فنون اور معروف درسگاہوں سے اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جون 1966ء کو اپنے آبائی گاؤں جمعہ شریف واپس لوٹے۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ اضلاع کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ شروع کر دیا اور تھل میں اسلام کی حقیقی روح اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی تبلیغ شروع کردی۔ 21 مئی 1967ء کو انہوں نے اپنے والد فقیر سلطان غلام باہو کی زیرِ سرپرستی، دمان کے ہم خیال عمائدین کے ایک بڑے اجلاس کا اہتمام کیا جس کا ایجنڈا، شانِ نبوت اور شانِ ولایت کی حفاظت کرنا تھا۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ انہوں نے تدریس، فتاویٰ نویسی اور تحقیقی کام کی جانب توجہ دی اور " اقوال النصیحہ فی مسائلِ ذبیحہ" کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی۔

تدریس[edit | edit source]

انہوں نے اپنے آبائی گاؤں جمعہ شریف میں ابھی علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہی تھا کہ ان کے ایک چچا، صوفی بزرگ سلطان محمد مشتاق (1929ء-1967ء) نے اصرار کیا کہ وہ مدرسہ انوارِ باہو بھکر منتقل ہو جائیں، جمعہ شریف کے علاقے کو چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن آخرکار چچا جان کے اصرار کی وجہ سے اپنے والداور دوسرے چچا سلطان غلام دستگیر کے مشورہ سے 1967ء میں وہ بھکر مدرسے میں منتقل ہو گئے۔ انہوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی کا بیشتر حصہ بھکر میں گزارا اور مدرسہ انوارِ باہو کو جامعہ میں تبدیل کر دیا بلکہ اس کی کئی شاخیں قائم فرمائیں۔ ان میں سے چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں: -

  • انورِ باہو، محلہ سردار بخش، بھکر
  • مدرسہ غوثیہ قادریہ، بانو بازار، بھکر
  • حسنیہ نوریہ دارالقرآن، ریلوے روڈ، بھکر
  • مدرسہ انوارِ باہو، زندانی، ڈیرہ اسماعیل خان
  • مدرسہ انوارِ باہو، گنڈی عمر خان، ڈیرہ اسماعیل خان
  • مدرسہ انوارِ باہو، جھوک عبد اللہ، ڈیرہ اسماعیل خان

انہوں نے کسی معاوضے کے بغیر درس نظامی کی تعلیم دی اور جمعہ کا خطبہ پہلے جامع مسجد سردار بخش میں پھر اس کے بعد جامع مسجد اے-سی کورٹ میں دیتے رہے۔ بعد میں اس کا نام جامع مسجد خلفاء راشدین، بھکررکھ دیا گیا۔

طریقت[edit | edit source]

اپنے جد امجد کی طرح وہ بھی طریقت (تصوف) پر یقین رکھتے تھے، وہ اپنے والد کے ہاتھ پر سروری قادری سلسلہ میں بیعت ہوئے وہ روحانی ترقی کے لیے مختلف وظائف اور مجاہدے پر عمل پیرا رہے۔ ان کے بارے میں کئی کرامات بھی مشہور ہیں لیکن وہ "الاستقامة فوق من الکرامة" کے اصول کے قائل تھے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زندگی کا ایک جزولاینفک اوران کی تبلیغ کا خاص موضوع تھا۔

نکاح[edit | edit source]

1969ء میں، ان کا نکاح اپنی چچا زاد سے ہوا جوسلطان غلام دستگیر کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انہیں چھ بچوں سے نوازا۔

وفات[edit | edit source]

9 رمضان المبارک 1427 ہجری بمطابق 3 اکتوبر، 2006ء کو جب وہ روزہ کی حالت میں اپنے مکان میں درود شریف پڑھتے ہوئے انتقال ہوا۔ کا ورد فرما رہے تھے۔4 اکتوبر 2006ء کو ان کی نماز جنازہ محمد شریف رضوی نے پڑھائی۔ ان کی تدفین جامعہ انوار باہو بھکر میں عمل میں آئی۔

سوانح عمری[edit | edit source]

دسمبر 2016ء میں ان کے بیٹے سلطان ناصر کے قلم سے آپ کی سوانح پر ایک مبسوط کتاب بعنوان ”سیرتِ نور“ منظر عام پر آئی جس میں تحریر کے ساتھ ساتھ تصویروں سے بھی قاری کی رہنمائی کی گئی ہے۔