Wn/ur/سلطان بازید محمد والد حضرت سلطان باہو

From Wikimedia Incubator
< Wn‎ | ur
Wn > ur > سلطان بازید محمد والد حضرت سلطان باہو

سلطان بازید محمد والد محترم سلطان العارفین سلطان باہو

نام[edit | edit source]

سلطان بازید محمد نام تھا۔ سلطان العارفین سخی سلطان باھو اپنی کتب کے شروع میں اپنا تعارف جن الفاظ سے کراتے ہیں اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے یعنی ""تصنیف فقیر باھو ولد بازید محمد عرف اعوان۔ بازید محمد پیشہ ور سپاہی تھے اور مغل بادشاہ شاہجہان کے لشکر میں ایک ممتاز عہدے پر فائز تھے۔ آپ شروع ہی سے ایک صالح" شریعت کے پابند حافظِ قرآن" فقیہ شخص تھے۔ آپ نے اپنی جوانی لشکر کے ساتھ بسر کی اور تمام جوانی جہاد کی نذرکردی۔ آپ کی اولاد نہیں تھی۔

بی بی راستی سے شادی[edit | edit source]

ڈھلتی عمر میں شاہی دربار چھوڑ کر چپ چاپ واپس اپنے علاقے میں چلے آئے اورایک رشتہ دار ہم کفو خاتون بی بی راستی سے نکاح فرمایا۔ آپ کی اہلیہ بی بی راستی عارفہ کاملہ تھیں اورپاکیزگی اورپارسائی میں اپنے خاندان میں معروف تھیں۔ اکثر ذکر اور عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں وہ جگہ اب تک معروف و محفوظ ہے جہاں آپ ایک پہاڑی کے دامن میں چشمہ کے کنارے ذکر اسم ذات میں محو رہا کرتی تھیں۔سلطان العارفین سلطان باھو اپنی تصانیف میں اپنی والدہ محترمہ سے اپنی عقیدت و محبت کا بارہا اظہار فرماتے ہیں۔

آپ کی والدہ کا پایہ فقر میں بہت بلند تھا۔ اور اپنے بچے کا نام باھو رکھا تو اس بنا پر کہ وہ فنا فی ھُو کے مرتبہ پرتھیں اور آپ کو بارگاہِ حق تعالیٰ سے سلطان العارفین سلطان باھو کی ولادت اور بلند مرتبہ کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے آپ نے حکمِ الٰہی کے تابع آپ کا نام باھورکھا۔سلطان العارفین سخی سلطان باھو کی ابتدائی تربیت بی بی صاحبہ نے کی اورآپ نے اپنی والدہ سے ہی ابتدائی باطنی تربیت بھی حاصل کی۔

یاد خدا[edit | edit source]

سلطان بازید محمد نکاح کے بعد جب اپنی اہلیہ محترمہ بی بی راستی کے ساتھ رہنے لگے تو ان کی پارسائی اور عبادت گزاری سے بہت متاثر ہوئے۔ اب وہ خود عمر کے اس مرحلے پرتھے جب آدمی اپنے اندر تجزیے میں مصروف ہوتا ہے کہ زندگی میں کیا کھویا" کیا پایا۔ کچھ فیضِ ازلی نے آپ کو متوجہ کیا تو آپ نے دنیا ترک کردی اورطے کیا کہ آئندہ اسبابِ دنیاداری سے الگ رہ کر وہ بھی صرف یادِ خدا میں زندگی بسر کریں گے۔ دل میں یہ قصد لے کر ایک دن آپ کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ملتان پہنچے۔ چونکہ آپ فوج چھوڑ کر گئے تھے اور سلطنتِ دہلی سے آپ کا حلیہ مشتہر کیا جا چکا تھا اس لیے سرکاری اہلکار آپ کی تلاش میں تھے۔ملتان میں آپ پہچان لیے گئے اورحاکمِ ملتان کے سامنے پیش کیے گئے۔ جب ملتان کے حاکم نے بازید محمد کا چہرہ مبارک" لباس اور سواری کی گھوڑی دیکھی تو آپ سے بہت متاثر ہوا اور آپ کا دو روپیہ یومیہ وظیفہ مقرر کیا۔ آپ ملتان میں ایک مکان کے اندرتنہائی میں یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے اور بالآخر ولی اللہ اوربارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے ہوئے۔آپ کے ملتان میں قیام کے دوران میں حاکمِ ملتان اور راجا مروٹ کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔ چونکہ آپ تنہا ملازم تھے اس لیے اس خدمت کے لیے آپ کو کسی نے یاد نہیں کیا۔

ملتان آمد[edit | edit source]

آپ خود بخود گھوڑی پر ضروری اسباب باندھ کر اور ہتھیار لگا کر ملتان کے حاکم کی خدمت میں پہنچے اور کارِخدمت کی درخواست کی۔ حاکم نے پوچھا کہ ""آپ لشکر میں کس برادری کے جتھہ میں شریک ہو کر جنگ کریں گے؟""عرض کیا ""چونکہ میں اکیلا تنخواہ کھاتا رہا ہوں اب جو کچھ مجھ سے ہوگا اکیلا ہی خدمت کروں گا""۔ آپ کی یہ بات سن کر دربار کے تمام امرا مسکرا دیے۔ حاکم نے کہا ""کوئی مضائقہ نہیں جس طرح یہ مرد کہے اسی طرح کرنا چاہیے۔ ""پھر آپ نے عرض کی کہ ""ایک شخص راستہ کا واقف اور ایک تصویر راجا مروٹ کی عنایت ہو۔"" چنانچہ دونوں چیزیں مہیا کردی گئیں۔ آپ سلام کر کے روانہ ہوئے اور جب قلعہ مروٹ کے قریب پہنچے تو ساتھی کو رخصت کیا اور خود شہر کی راہ لی اور ایک ہی چھلانگ میں آپ کی گھوڑی قلعہ کی فصیل پار کر گئی۔ قدرتِ خداوندی دیکھیے کہ آپ سیدھے راجا مروٹ کی کچہری میں جا ٹھہرے اور سب درباریوں کی موجودگی میں راجا کا سر کاٹ کر قربوس سے لٹکے ہوئے توبڑا میں رکھ لیا۔ اس اچانک افتاد سے تمام درباریوں پر حالتِ سکتہ طاری ہو گئی اور کسی کو آپ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تاکہ آپ فرار نہ ہو سکیں لیکن آپ کی شاہین گھوڑی پھرایک ہی چھلانگ میں قلعے کی فصیل پھلانگ گئی۔ بازید محمد جب ملتان کے حاکم کے دربار میں راجا مروٹ کا سر اکیلے لے کر داخل ہوئے تو آپ کی یہ کرامت دیکھ کر حاکم حیران رہ گیا۔آپ کے ا خدا میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا ان کی سابقہ خدمات کے پیشِ نظر یہ درخواست نہ صرف منظور ہوئی بلکہ شور کوٹ کی جاگیر بھی انہیں عطا ہوئی جس کا رقبہ 25ہزار ایکڑ زمین پر مشتمل تھا۔ آپ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ انگہ کو چھوڑ کر شورکوٹ میں رہائش اختیار کرلی۔ تاریخ میں بازید محمد اور حضرت بی بی کے کارنامے کی شہرت جب دہلی کے دربار تک پہنچی تو پہچان لیے گئے اور شاہجہان نے آپ کو واپس بلوایا۔ آپ نے معذرت کی اور کہا کہ باقی عمر یادِ ر استی کے سنِ وفات کا تذکرہ نہیں ملتا۔ مناقبِ سلطانی سے بس اتنا معلوم ہوا ہے کہ بازید محمد کا انتقال سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ لیکن مائی صاحبہ اس وقت بھی زندہ تھیں جب سلطان العارفین سخی سلطان باھو کی عمر مبارک 40سال تھی۔سلطان العارفین سخی سلطان باھو کے والدین کے مزار مبارک شورکوٹ شہر میں ہیں اور مزار مبارک ماں باپ سخی سلطان باھو کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔